کورونا وبا اور کمیونٹی رہنما

September 22, 2020

بولٹن کی ڈائری /ابرار حسین
شمالی انگلستان میں نارتھ ویسٹ، ویسٹ یارکشائر اور مڈلینڈ کے بعض حصوں کو آج بروز منگل سے کوویڈ 19 کے حوالے سے سخت قسم کی نئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ میٹ ہینکوک نے قومی لاک ڈائون کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کردیا تھا۔ برطانوی وزراء نے شمال مغرب اور مڈلینڈ کے کچھ حصوں میں کوویڈ 19 کے کیسوں میں تیزی کے ساتھ ایک بڑے اضافے کے پیش نظر قواعد سخت کرنے کا اعلان کیا جبکہ بلیک پول کو چھوڑ کر مرسی سائیڈ، وارنگٹن، ہیلٹن ،لنکاشائر پر بھی مندرجہ ذیل پابندیوں کو نافذ کیا جائے گا جس طرح گریٹر مانچسٹر میں لگائی جاچکی ہیں ان شہروں میں بسنے والے شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر دوسرے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ سے گریز کریں اور اس کے ساتھ ساتھ نجی گھروں اور باغات میں بھی اکھٹے ہونے کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ریستوران، پب اور بار صرف ٹیبل سروس تک ہی محدود رہیں گے جبکہ تمام تفریحی مقامات ریستوران، پب اور سینما گھروں سمیت شام دس بجے سے صبح 5 بجے تک بند ہونا ضروری ہوگا۔ ہر ایک شہری کو یہ مشورہ دیا گیاہے کہ وہ ضرورت کے علاوہ عوامی نقل و عمل سے گریز کریں اور کوئی بھی ایسی سرگرمیاں خواہ وہ پیشہ ورانہ یا شوقیہ کھیل کا حصہ ہوں ان پر بھی پابندی کا اطلاق ہوگا،نئے قواعد بولٹن سمیت گریٹر مانچسٹر کے کسی بھی حصے پر لوگو نہیں ہوں گے۔ کیونکہ وہ پہلے ہی سے ایسی پابندیوں کے زیراثر ہیں۔ مڈلینڈ میں ڈڈلی اور وگسٹن میں لوگوں کو منگل سے نجی گھروں اور باغات میں اپنے گھر والوں سے باہر دوسروں کے ساتھ اجتماعی طور پر پابندی ہوگی اور اسی قسم کی پابندیاں ویسٹ یارکشائر، بریڈفورڈ، کرکلز، کالڈرڈیل کے تمام حصوں کے لوگوں پر بھی منگل کو نافذ العمل ہوں گی۔ صحت اور سماجی نگہداشت کے سیکرٹری میٹ ہینکوک کا کہنا تھا کہ ولورہمٹن سمیت لنکاشائر، ویسٹ یارکشائر کے مختلف علاقوں میں کرونا وائرس کے واقعات میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہاہے اس سے وہاں کے رہائشیوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ وہ بغیر ضرورت کے عوامی نقل و حرکت سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ذہانت داری کے ساتھ یہ بات کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو حکومت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اس میں ہر ایک کا اپنا فائدہ ہے اور دی گئی ہدایات کو نظرانداز کرنے پر نقصان بھی ہوسکتا ہے انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی ہماری کمیونٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کرونا جیسی عالمی جان لیوا وبا کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتے اور یہی وہی عمومی رویہ ہے جس کے باعث برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بالخصوص نارتھ ویسٹ کے رہائشی بار بار ایسی پابندیوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اس حوالے سے ایسے بہت سے سوالات بھی فطری طور پر بعض ذہنوں میں ابھرتے ہیں کہ آخر ہماری کمیونٹی کی نام نہادی لیڈر شپ کس مرض کی دوا ہے ، وہ اگرواقعی رہنما ہیں جیسے کہ دعویدار ہیں تو پھر کب رہنمائی کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ منتخب کونسلرز میں سے کتنے ہیں جو یقیناً کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں وہ تو لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں ،بارہا جگانے کے باوجودٹس سے مس نہیں ہوتے عوامی نمائندگی کرنے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے انہیں تو تب یاد آتی ہے جب الیکشن سر پر ہوتے ہیں، پھر وہ عوام کے دروازوں پر دستک دیتے نظر آتے ہیں نہ جانے وہ کس طرح سامنا کرتے ہیں حالانکہ عوام کے کسی بھی سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا گو ان دنوں ون ٹو ون کورونا پینڈیمک کے باعث رابطہ نہ سہی مگر جدید مواصلاتی رابطہ توکیا جاسکتا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے دور میں زوم کے ذریعے اپنے رائے دہندگان کی رہنمائی اس اہم ترین مسئلہ پر نہیں کرسکتے ، کیا یہ ان کا فرض منصبی نہیں کہ وہ مرکزی حکومت اور کونسل کے علاوہ طبی ماہرین کی کرونا سے بچائو کی ہدایات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کیلئے اپنا رول ادا کریں ۔ کورونا پھیلائو روکنے میں صرف حکومت کا انتباہ کافی نہیں اس کیلئے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اورخاص طور پر کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے افراد کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔