حلقہ بندیوں کا تنازعہ: بلدیاتی انتخابات لٹک گئے

September 24, 2020

سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں جھلس کر ہلاک ہونیوالے 200افراد کے لواحقین کو 8سال بعد انصاف مل گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج رحمان بھولا اور زبیر چریا کو 260بار سزائے موت اور مجموعی طور پر 10سال قید بامشقت سمیت بھاری جرمانوں کی سزا سنا دی جبکہ رئوف صدیقی، عمر حسن قادری، ادیب اقبال خانم کو بری کر دیا۔

بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے اور کورونا وائرس میں کمی کے بعد کراچی میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں بظاہرایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سرگرمیاں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں عوام رابطہ مہم کا حصہ ہیں تاہم سندھ حکومت کی جانب سے 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے انکار کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات طویل عرصے تک لٹک گئے۔

اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیہون میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 1998کی مردم شماری کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکتے، بلدیاتی انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہوں گے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی اور مردم شماری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) دے گی،سندھ میں اس وقت سیلابی صورتحال ہے مگروفاقی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی مدد نہیں کی جارہی ہے، وفاقی حکومت اپنی نااہلی کاملبہ ہمیشہ پی پی پی کی حکومت کے اوپر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے آصف علی زرداری پر فردجرم نئی بات نہیں انہوں نے پہلے بھی کیسز کا بہادری سے سامنا کیا اور اب بھی کریں گے۔

سید مرادعلی شاہ نے کہاکہ حدبندیوں کے بعدقانون کے مطابق 120 روز کے اندر بلدیاتی انتخابات منعقد ہوسکیں گے۔اس کے باوجود پاک سرزمین پارٹی ، ایم کیوایم، جماعت اسلامی، اے این پی، پی پی پی، جے یو آئی مختلف عنوانات سے عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ایک طویل عرصے بعد اے این پی شہر میں سرگرم ہوئی ہے اور اے این پی نے کراچی کے تمام اضلاع میں ورکرز کنونشن منعقد کئے ہیں جس سے اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید اور دیگر قائدین نے خطاب کیا ۔

شاہی سید نے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہاکہ غیرسنجیدہ لوگوں نے کارسرکار کو مذاق بنادیا ہے۔ کراچی شہر کے مسائل کے حل کے لیے جامع منصوبہ بندی نہیں ہے شہر کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں کراچی کے مسائل کو صرف کراچی کے رہنے والے حل کرسکتے ہیں باہر سے آنے والے کراچی کے مسائل حل نہیں کرسکتے ادھر جماعت اسلامی نے 27 ستمبر کو حقوق کراچی کے عنوان سے ایک بڑے مارچ کااعلان کردیا ہے جس کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں اس ضمن میں امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے گزشتہ ہفتے کراچی کا دورہ بھی کیا جماعت اسلامی نے گزشتہ ایک سال کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ ، گیس لوڈشیڈنگ، کراچی میں کچرے کے مسائل، قلت آب سمیت دیگر عوامی مسائل پرتوانا آواز اٹھائی ہے دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال روزانہ کی بنیاد پر کراچی اور حیدرآباد کے دورے کررہے ہیں ان کے رفقاء کارانیس قائم خانی اوردیگر رہنما بھی عوام رابطہ مہم میں مصروف ہیں مصطفی کمال نے دورہ نیوکراچی کے دوران آل پارٹیز کانفرنس پر کڑی تنقید کرتے ہوکہاکہ 12سال میں پیپلزپارٹی نے کراچی، لاڑکانہ، حیدرآباد کو موہنجودڑو بنادیا۔

عوام کی خاطرایم کیو ایم سے بات کرنے اور ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوں، نیوکراچی کے مختلف علاقوں کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین وسابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ نوازشریف ، بلاول اور آصف زرداری کا خطاب غورسے سنا، یہ سب لوگ حکمرانی کی بات کرتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ دوسروں کی حکومت کیوں ہے، بلاول بھٹوآپ کی تو سندھ میں کئی سال سے حکومت ہے آپ نے کراچی کو موہنجودڑو بنا دیا ہے یہ کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو ، آپ پہلے ووٹرز کو توعزت دیں۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے بھی اپوزیشن کی اے پی سی کی مخالفت کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہاکہ حکومت کے 870دن نااہلی اور ناکامی کا ثبوت ہیں، اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دیا ہے، کرپٹ عناصر اپوزیشن اور حکومت دونوں کے اندر موجود ہیں، ان کی پالیسیاں ایک ہیں، جماعت اسلامی ہی حقیقی اپوزیشن ہے،سراج الحق نے کہاکہ کراچی ملک کی معاشی شہ رگ پورا شہرتباہ حال ہے۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت ناکام ہوگئی، جب کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے بھی دوسال میں کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا،ادھر ایم کیو ایم نے بھی شہری سندھ کے حقوق کے لیے 24 ستمبر کو مارچ کا اعلان کیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینئر ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی مار چ شہری سندھ کے حقوق کے لیے نکالاجارہا ہے اور یہ حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے شہری سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور حق تلفی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 11 سال سے سندھ میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کو مصنوعی حکمرانی دی گئی جو شہر کو تباہ کرنے کی سازش میں مصروف ہے، انہوں نے کہاکہ گزشتہ 50 سال سے صوبے میں نافذ کوٹاسسٹم کے تحت شہری سندھ کو 40 فیصد حصہ ملنا تھا لیکن 4 فیصد بھی نہ مل سکا۔ صوبے بننے چاہئیں اور یہ آئینی مطالبہ ہے۔

دوسری جانب کراچی کے مسائل زدہ شہریوں کی آزمائش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، بارش سے پیدا بدترین صورتحال اور سیوریج نظام کی خرابی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کاامتحان ختم نہ ہوا تھا کہ اب گیس کا بحران پیدا ہوگیا، کئی علاقوں میں رات کے آخری پہر بھی فالٹس کے نام پر بجلی کی بندش کا سلسلہ جاری ہے شہری کس سے فریاد کریں صوبائی حکومت وفاق کی حکمران جماعت کے کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما اور اہم شخصیات بھی بے بس دکھائی دے رہے ہیں شہر قائد میں بجلی کی طویل بندش اور پانی کی عدم فراہمی کے بعد مقامی صنعتوں کے ساتھ اب شہر کے گھریلو صارفین بھی گیس پریشر میں کمی سے شدیدمشکلات کی زد میں آگئے ہیں۔ادھربارش کو 20 روزگزر جانے کے باوجود میرپورخاص، سانگھڑ اور سندھ کے دیگر اضلاع سے بارش کا پانی نہیں نکالاجاسکا جس کی وجہ سے کپاس، گنے، ٹماٹر، مرچ کی فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔