جماعت اسلامی نے APC میں شرکت کیوں نہیں کی... اندرونی کہانی؟

September 24, 2020

ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف 11سیاسی جماعتوں نے پاکستان جمہوری موومنٹ کے پلیٹ فارم سے چاروں صوبوں میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کےلئے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں پیپلز پارٹی،کے پی کے میں جے یو آئی اور بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ، جے یو آئی اور دیگر علاقائی جماعتوں سے مل کر پہلے مرحلے میں احتجاجی جلسے کرکےا پنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئےمتحرک ہو گئیں ہیںاور دوسری جانب حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے نئے اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف آپشنز پر کام شروع کر دیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار گزشتہ 35سال سے ایک دوسرےکے خلاف برسر پیکار ،برسر اقتدار رہنے والی دو متحارب بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی ایک پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میدان میں نکلی ہیں۔ پیپلز پارٹی این اے پی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت اتحاد میں شامل دیگر علاقائی جماعتوں کی اکثریت پہلے ہی رانٹی اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اب پرواسٹیبلشمنٹ جماعت مسلم لیگ (ن) نے نئے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم میں شمولیت سے حکومتی سیاسی حلقوں میں طوفان برپا کر دیا ہے ۔

مسلم لیگ (ن) کے قائدسابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم اور تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے ۔جبکہ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کی تین بار پنجاب میں حکومت رہی اب بھی میاں شہباز شریف قومی اسمبلی اور ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔اس طرح گزشتہ چار دہائیوں سے شریف خاندان کے افراد وفاقی اور پنجاب کے پارلیمان اور اقتدار کے ایوانوں کا حصہ چلے آ رہے ہیں۔

انہوں نے سیاسی میدان میں ہمیشہ رانٹی اسٹیبلشمنٹ جماعتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اب پہلی بار سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اے پی سی کے سربراہی اجلاس میں طویل خاموشی کے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کہ ہمارا مقابلہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خاں سے نہیں ان کو مسلط کرنے والوں کےساتھ ہے کا بیانیہ دے کر سیاسی و جمہوری اور سول اداروں میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا راستہ روکنے کا اشارہ دیا ہے اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کی نئی تحریک کا آغاز ٹائمنگ کے حوالے سے بڑا اہم ہے ۔

مارچ 2021میں سینٹ کی خالی ہونے والی 54نشستوں پر انتخابات ہونے ہیں اگر موجودہ پارلیمان کے ذریعے ہی سینٹ کے انتخابات ہوئے بھی تو پھر پاکستان تحریک انصاف کو سینٹ میں برتری مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے سینٹ کے کئی سنیٹرز کے سینٹ سے آئوٹ ہونے سے ایوان بالا میں ان اپوزیشن جماعتوں کی پوزیشن کمزور پڑ جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے پی ڈی ایم کے ایکشن پلان سے لگتا ہے کہ سینٹ انتخابات سے قبل حکومت کو گرانے یا نئے انتخابات کرانے کا ایجنڈا لیکر اپوزیشن جماعتیں میدان میں نکلی ہیں اور سینٹ کے انتخابات سے قبل حکومت گرانے کے کھیل کا آغاز ہو گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی کھیل میں حکومت یا اپوزیشن کس کی جیت ہوتی ہے سیاسی حلقوں میں جماعت اسلامی کی موجودہ صورتحال میں کردار کو بڑی بریک بینی سے پرکھا جا رہا ہے ۔ جماعت اسلامی کا اے پی سی میں حکومت مخالف تحریک میں شامل نہ ہونے کے بارے امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق کا یہ کہنا بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اصل اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کر سکی دونوں جماعتوں نے حکومت سے مل کر قانون سازی کی اب ملک میں اصل اپوزیشن کا کردار جماعت اسلامی ادا کرے گی۔

مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کا نظریہ ایجنڈا اور پروگرام ایک نہیں ہے دونوں جماعتیں 40سال سے اپنی باریاں لیکر اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں انہوں نے کراچی اور سندھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں 13سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کراچی اور سندھ کی بربادی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 30سالہ دور میں بھی ملک قرضوں میں جکڑ دیا گیا اور موجودہ حالات کی ذمہ داری پی ٹی آئی سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ و سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے بھی میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا میاں نواز شریف نے ہر بار اقتدار ملنے پربعد میں اداروں کو کمزور کیا اب پھر نواز شریف نے سیاستدانوں کی بجائے فوج کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ نواز شریف کے مطابق ملک کو لیبارٹری بنا دیا گیا اس لیبارٹری کی بنیادخود نواز شریف نے رکھی اور 1990کے الیکشن میں خود ہی رزلٹ کا اعلان کردیا اس طرح کی کئی مثالیں دے کر چودھری شجاعت حسین نے جو کہ ان کے گھر کے بھیدی بھی رہے ہیں میاں نواز شریف کا چہرہ بے نقاب کردیا۔ چودھری شجاعت حسین کے اس بیان کو سیاسی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاستدانوں اور ارکان پارلیمینٹ کی اکثریت ملک میں سیاسی استحکام چاہتی ہے۔

نواز شریف کے اس بیانیہ سے اختلاف رکھنے والے کئی مسلم لیگی ناراض ہیںجس کے نتیجے میں ایک اور نئی مسلم لیگ کے جنم لینے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومتوںکے لئے پی ڈی ایم کی حکومت مخالفانہ سرگرمیاں کیا نئے مسائل پیدا کرتی ہیں؟ تو پی ٹی آئی اپوزیشن کے سیاسی حربوں کو کیسے ناکام بناتی ہے۔پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جنہیں وزیراعظم عمران خان کی مکمل آشیر باد حاصل ہے وہ اگلے چند ماہ میں اپوزیشن کے جمہوری آئینی طریقوں سے حکومت کو گرانے کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا سب سے بڑا ہدف پنجاب ہے اور اپوزیشن کا اگلے چند ماہ میں پنجاب میں سیاسی میدان لگے گا جو اپوزیشن کی تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرے گا۔

اسی حوالے سے حکومت نے اپوزیشن کی تحریک کا راستہ روکنے کے لئے حکمت عملی طے کرلی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں کو عوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کس طریقے سے اپنے پتے کھیل کر مایوس عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں کیسے کامیاب ہوتی ہیں۔ اس کا فیصلہ بھی عوام پر منحصر ہے۔