لیڈی ڈیانا ایوارڈ

September 26, 2020

برطانیہ کا باوقار اعزاز ’’لیڈی ڈیانا ‘‘ایوارڈہر سال یکم جولائی کو شہزادی ڈیاناکی سالگرہ کے موقع پرمختلف ممالک کےان نوجوانوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے ملک میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دیں۔ ایوارڈ کے اجراء سے اب تک دنیا کے مختلف ممالک کے 27نوجوان یہ ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ اس سال ’’ڈیاناایوارڈ‘‘ حاصل کرنے والوں میں پانچ پاکستانی نوجوان بھی شامل تھے جنہوں نے حال ہی میںلندن میں منعقدہونے والی ایک تقریب میں یہ ایوارڈ حاصل کیا۔ ان میں محمد شعیب بنگش، رائنہ خان، نبیلہ عباس، عمر مختار اور احمد طور شامل ہیں۔ذیل میں ان نوجوانوں کی سماجی خدمات کا مختصراحوال پیش کیا جارہا ہے۔

محمد شعیب بنگش

خیبر پختون خواکے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے شعیب بنگش صوبے میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے کاموں کے حوالے سے بہت معروف ہیں۔ انہوں نے نیویارک، جنیوا، بنکاک، لندن، برلن اور سری لنکا میں نوجوانوں کے حوالے سے منعقد ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ 2019میں انہیں انٹرنیشنل پیپلز چوائس لیڈر شپ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2019 میں انہوں نے گلوبل یوتھ لیڈر شپ ایوارڈ حاصل کیا جب کہ جولائی 2020 میں ’’ڈیانا ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔

رائنہ برکی

لاہور میں رہنے والی رائنہ خان برکی 18 سال کی ہیں اور کم عمر لڑکیوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے '’’زنانہ فاؤنڈیشن‘‘کے نام سے این جی او چلا رہی ہیں ۔ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک سکول قائم کیا گیا ہے جس میں بچیوں کوتعلیم دی جاتی ہے۔انہوں نے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر بھی قائم کیا ہے۔جب وہ چھوٹی تھیں تو اس زمانے میں ان کے والد عدیل خان برکی نے ایک اولڈ ایج ہوم کھولا تھا جومالی مشکلات کی وجہ سے کچھ عرصے بعد بند کردیا گیا۔

رائنہ نے اپنے کلاس فیلوزکی مدد سے ایک کمرہ کرائے پر لے کر زنانہ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کے تحت ا سکول بھی کھولاگیا۔رائنہ خان برکی 2017 میں یو ایس سمر سسٹر پروگرام کے لیے منتخب ہونے والی 23 پاکستانی خواتین میں شامل تھیں ۔ 2018 میں وہ پہلی پاکستانی تھیں جو گلوبل یوتھ ایمبیسیڈر لیڈر شپ کانفرنس کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔رواں سال انہیں لندن میں ’’ڈیانا ایواڈ‘‘ سے نوازا گیا ہے۔

نبیلہ عباس

ضلع ڈیرہ غازی خان کے گاؤں چوٹی زریں سے تعلق رکھنے والی نبیلہ عباس نے پاکستان کے دیہی علاقوں میں فلاح و بہبودکے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ اسی مقصد کے تحت وہ دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کواپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور معاشرے میں باوقار مقام دلوانے کے لیے اقدامات کررہی ہیں۔

دیہی ماحول میں رہنے کے باوجود نبیلہ کوبچپن سے ہی اعلی تعلیم حاصل کرنے کاشوق تھا اور انھوں نے لاہور کی یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی سے ہوا بازی کی تعلیم میں بیچلرز مکمل کیا۔انہوں نے ملک میں ایوی ایشن لٹریری فورم کی بھی بنیاد رکھی ، جس کا مقصد لڑکیوں کو ہوابازی سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہے۔ان کی خدمات کا صلہ دو ماہ قبل ’’ڈیانا ایوارڈ ‘‘کی صورت میں ملا۔

احمد طور

لیڈی ڈیانا ایوارڈ حاصل کرنے والے چوتھے پاکستانی نوجوان احمد طور پاکستان کے شہر رحیم یار خان میں رہتے ہیں۔ وہ اس شہر کے پہلےفرد ہیں جنہیں کسی بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔احمد طور ’’میپس ‘‘نامی سماجی ادارے کے صدر ہیں اور اس منصب پر دوسری مرتبہ منتخب ہوئےہیں۔ان کا ادارہ بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی پیشے کا انتخاب کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور ان کی استعداد کو بڑھانے کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کرواتا ہے۔ وہ گزشتہ چار سال سے اس ادارے کے ساتھ منسلک ہیں اور سماجی خدمات کی وجہ سے اب بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور ڈیانا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔

عمر مختار

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عمر مختارایک استاد ہیں۔ انہوں نے اپنے شہر میں ’’کتاب فاؤنڈیشن‘‘ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ اس کے قیام کا مقصد اسکولوں کے وہ طلبا ، جن کے پاس کتابیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، انھیں یہ کتابیں مفت عطیہ کی جائیں تاکہ وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔اس کے بعد انہوں نے صداقت فاؤنڈیشن قائم کی ۔ اس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے دیہی علاقوں میںجہاں نوجوانوں کو تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں، وہاں اسکول تعمیر کرنے کے لئے 30 ہزار ڈالر جمع کیے۔

ایک نوجوان استاد ہونے کی حیثیت سےانہیں ابتدا میں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگرانہوں نے اپنے شروع کیے گئے منصوبوںکو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ’’ڈیانا ایوارڈ ‘‘ حاصل کرنے والے وہ پانچویں پاکستانی نوجوان ہیں۔

تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے: ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔