بدنام زمانہ خطرناک ڈاکوؤں کی گرفتاری کے بعد امن و امان قائم

October 18, 2020

سندھ پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی قدرتی وسائل سے مالا مال ایک صنعتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذرعی علاقہ بھی ہے، جب کہ 50 کلومیٹر چوڑائی اور 40 کلو میٹر لمبائی پر محیط دریائے سندھ کا کچے کا علاقہ نوگوایریا ہے، بلکہ وہاں موجود ڈاکوؤں کے مختلف گروہوں نے ضلع گھوٹکی کی عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا، اغوا برائے تاوان کی بڑھتی وارداتیں نصف درجن زائد تاوان کے لیے کچے میں یرغمال شہری یہاں تک جدید اسلحہ اینٹی گرافٹ گن راکٹ لانچر، گولوں سے لیس ڈاکوؤں سے مقابلہ نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا تھا اور رہی سہی کثر پولیس مقابلے کے دوران ایک پولیس اہلکار کی شہادت اور 3 پولیس اہلکار کے زخمی کرنے اور عادل پور پولیس چوکی پر حملہ کرکے ایک اہکار کو شہید کرنے نے پوری کر دی اور پولیس کی ڈاکوؤں کے مقابلے میں ناکامی کے بعد ڈاکوؤں کی سوشل میڈیا پر نمائش ٹک ٹاک نہ صرف پولیس کا منہ چڑا رہی تھی بلکہ ڈاکوؤں کا خاتمہ اور ان کی سرگرمیاں روکنا پولیس کے لیے ایک چیلنج بن گیا تھا۔ تاہم پولیس کے اعلی افسران نے ضلع گھوٹکی کے ڈاکوؤں اور رہزنوں کے خلاف مؤثر حکمت عملی اور ان کے خاتمے کے کے لیے نڈر، باک نوجوان سپہ سالار ایس ایس پی عمر طفیل کو تعینات کیا۔

تاہم ایس ایس پی عمر طفیل کی مختصر مدت میں تعیناتی کے دوران اور ایک درجن سے زائد پولیس ٹیموں کے ٹارگیٹیٹ آپریشن اور شب و روز کی محنتیں رنگ لائی اور پولیس کے بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے 25 ڈاکوؤں کو مقابلے کے بعد گرفتار کیا۔ مختصر مدت کے دوران 181 ٹارگیٹیٹ آپریشن میں ڈاکوؤں کے ساتھ 41 بار مڈ بھیڑ ہوئی۔ 23 ڈاکوؤں کی گرفتاری کے ساتھ 13 ڈاکوؤں کو پولیس مقابلے کے دوران زخمی حالت میں فرار ہوتے ہوئے گرفتار کیا، جس میں ایک ڈاکو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہو گیا یے اور یہی نہیں بلکہ 32 گینگز کا خاتمہ کیا۔ 392 روپوش اور اشتہاریوں کو گرفتار کیا اور بھاری مقدار میں اسلحہ اور مسروقہ سامان بھی برآمد کیا ۔پولیس کی موثر حکمت عملی جدید اطلات سے ڈاکوؤں کے تعاقب ان کے خاتمے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد امن و امان کی صورت حال بحال ہونا شروع ہوگئی ہے، جس سے نہ صرف کاروبار پھل پھول رہا ہے بلکہ کچے پکے میں لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ذرعی علاقہ ہونے کی وجہ سےکاروباری سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں اور کچے پکے میں کپاس کی چنائی اور خرید و فروخت کا آغاز ہوگیا ہے ۔ امن و امان کی قائم صورت حال کے باعث کپاس کے بیوپاری اپنا کاروبار کھل کر سکیں گے۔ تاہم موٹرسائیکل چوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر بھی کسی حد تک کنٹرول کیا جا چکا ہے اور ضلع کے مختلف تھانوں اوباڑو، ڈہرکی، میرپورماتھیلو، خانپورمہر، سرحد، گھوٹکی سے چھینی یا چوری کی گئی موٹرسائیکلیوں کی برآمدگی میں بھی کافی حد تک کام یابی حاصل ہوئی ہے اور ایس ایس پی گھوٹکی عمر طفیل نے متاثرین کو باقاعدہ ایک تقریب کے ذریعے موٹر سائیکلیں واپس کی ہیں، جس کے بعد شہریوں کا پولیس پر نہ صرف اعتماد بحال ہو رہا ہے، بلکہ شہری بھی پولیس کے ساتھ تعاون پر تیار ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب ایس ایس پی عمر طفیل نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ترجیحات میں ایک تو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو روکنا ، ڈاکوؤں کو کیفر کردار تک پہنچانا مغویوں کی ڈاکوؤن کے چنگل سے بہ حفاظت رہائی ترجیحات میں شامل تھی، جس میں الحمداللہ کام یابی حاصل ہوئی ہے اور اب ان کی توجہ سماجی برائیوں ، جوئے کے اڈاوں ، بکی مافیا اور ان کے سر پرستوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے، جب کہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے ۔

تاہم اب اس میں تیزی لائی جائے گی تاکہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکے، شہری جوئے کی لت میں لگ کر اپنی جمع پونجی گنواں بیٹھے ہیں، تو اس کے بعد چوری چکاری کی جانب بڑھتے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے مختصر نفری کے باوجود چائنا، پاکستان معاہدے کے تحت بننے والے سی پیک یعنی سکھر ملتان موٹروے کو مکمل طور پر محفوظ بنا دیا گیا ہے، جہاں ڈسٹرکٹ پولیس کی چوکیاں قائم ہیں ،جس کی بدولت موٹروے پر ایک بھی ناخوش گوار واقع پیش نہیں آیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگوں کے زیادہ تر زمین، رشتہ داریوں اور لین دیں کے تنازعات ہیں جو کہ آگے چل کر لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ہم ایسے مسائل کو بھی حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ لوگ باہمی طور پر آپس میں نہ لڑیں اور افہمام و تفہیم سے معاملات حل ہو جائیں۔ ایس ایس پی گھوٹکی نے ایک سوال کے جواب میں جنگ کو بتایا کہ بہت سی پولیس کی کالی بھیٹروں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے، کام کرنے والے افسران کو آگے لایا گیا ہے اور پولیس میں بدعنوانی رشوت ستانی کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو تھانے کی سطح پر انصاف مل سکے۔

اس کے علاوہ لوگوں کے اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیاست دانوں کے کہنے پر ایس ایچ اوز لگائے جاتے ہیں، جب کہ یہاں کے مختلف نمائندوں نے بھی تعاون کیا ہے۔ ان کی جانب سے بھی ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے کہ تھانوں پر ان کی مرضی کے ایس ایچ اوز تعینات کیے جائیں۔ ہماری خواہش ہوتی ہے ٹیم پولیس کی مرضی کی ہو اور امن و امان عوام اور منتخب نمائندوں کی مرضی کا ہو تاکہ معاشرہ مثبت انداز میں پھل پھول سکے اور ضلع گھوٹکی امن کا گہوارہ بن سکے۔