ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی

October 25, 2020

جب رُوح کی گہرائیوں میں اُترا ہوا تعلق اچانک زندگی کی ڈور ٹوٹ جانے سے منقطع ہوجائے، تو چمکتے سورج کے نیچے کھڑے شخص کو بھی چہار جانب اندھیرے کے سِوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بولتی زبان گنگ ہوجاتی ہے، لکھتے ہاتھ شل ہونے لگتے ہیں۔ اور جب لکھنے والے کو اِک جملہ بھی سُجھائی نہ دے، تو رُوح کے گھاؤ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمّد یاسین مظہر صدیقی کے انتقال کے کئی روز بعد بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوں۔ ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہے اور قلم خشک صحرا کی تشنہ کامی کو مات دے رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے ہمارا پہلا تعارف کب ہوا؟

یاد نہیں، لیکن اُن کی کسی تحریر کے ذریعے ہی ہوا۔ یوں یاد پڑتا ہے کہ ایک اور بزرگِ مَن، ڈاکٹر سیّد محمّد ابوالخیر کشفی ؒ نے فرمائش کرکے ڈاکٹر صاحب کے کچھ مطبوعہ مقالات منگوائے تھے تاکہ اُن کی اشاعت کی کوئی صُورت کی جاسکے۔ یہ مقالات عکسی نقول کی صُورت میں تین، چار جِلدوں میں تھے اور موضوعاتی اعتبار سے مرتّب شدہ تھے۔ کشفی صاحب نے اشاعت کے لیے کراچی کے اُس وقت کے ایک بڑے ناشر کے حوالے کردیے، مگر پھر ناشر صاحب کی ترجیحات میں بدل گئی، تو یوں وہ مرتّب شدہ مسوّدات بھی ہاتھ سے جاتے رہے، مگر اس دَوران راقم کو اُنہیں دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا، یہ ڈاکٹر صاحب سے پہلا ذہنی رابطہ تھا۔

پھر اسی عرصے میں اُن کی کتاب’’ غزواتِ نبویؐ کی اقتصادی جہات‘‘ بھارت سے شائع ہوئی اور ہم تک پہنچ گئی۔ اس نے تو صاحبِ تحریر کے علم کا اسیر ہی کردیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ڈاکٹر صاحب کے سحر سے باہر نہیں آسکا۔مگر ڈاکٹر صاحب کی زیارت، ملاقات، گپ شپ اور پھر قربت 2011ء کے بعد ہی میسّر آسکی۔2011ء میں ہمارے ایک اور مخدوم، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری(مرحوم)، ڈائریکٹر جنرل ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی نے اپنے ادارے کے شعبے’’ سیرت سینٹر‘‘ کو فعال کرنے کا عزم کیا، تو اِس سلسلے میں کئی نشستوں کے بعد ایک بین الاقوامی کانفرنس کا خاکہ تیار ہوا، جو2011 ء میں منعقد ہوئی۔ راقم 2009ء میں’’ ریجنل دعوۃ سینٹر، کراچی‘‘ میں ملازمت کے ذریعے’’ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد‘‘ سے منسلک ہوچُکا تھا۔ کانفرنس سے کوئی دو ہفتے قبل ڈاکٹر انصاری نے ہمیں فون کرکے کانفرنس سے چند روز پہلے اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی۔ اب دیکھیے، بڑوں کے کام لینے کا طریقہ یا ترتیب کا سلیقہ۔

ہماری وہاں موجودگی سے کانفرنس کو یا اس کے منتظمین کو تو کیا فائدہ ہوتا، جو سیکھا، ہم ہی نے سیکھا، اگرچہ کیا سیکھا؟ کچھ بھی نہیں۔ کاش! اس مہلت کی قدر کرلیتے۔ خیر، ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا پہلے تشریف لے آئیں تاکہ مشاورت ہوسکے۔‘‘ ہم نے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل، دعوۃ اکیڈمی اور اپنے ایک اور کرم فرما کو اس حکم سے متعلق آگاہ کیا، تو بولے کہ’’ حکم ہوا ہے، تو تعمیل کیجیے۔‘‘ بہرحال، ہم نے انصاری صاحب کے دفتر سے رابطہ کرکے اپنی سیٹ کا انتظام کیا اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا’’ سیرت نگاری کے جدید رجحانات‘‘۔کانفرنس سے ایک دو روز قبل ہی بیرونِ ممالک سے وفود آنا شروع ہوگئے۔

سب سے بڑا وفد بھارت کا تھا، جو کوئی نو افراد پر مشتمل تھا۔ جو نام یاد آرہے ہیں، اُن میں ڈاکٹر محمّد یاسین مظہر صدیقی، ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی، ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، وارث مظہری، غطریف شہباز ندوی، ڈاکٹر عبداللہ فہد فلاحی اور ڈاکٹر ضیاء الدّین فلاحی شامل ہیں، مگر ان سب کے سرخیل یا وفد کےروحِ رواں ہمارے محترم ،ڈاکٹر محمّد یاسین مظہر صدیقی ہی تھے۔ سب ہی سے اَن دیکھی واقفیت یا قدرے تعارف تھا، مگر سچّی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اشتیاق ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جس رات یہ لوگ اسلام آباد پہنچے، اگلے روز صبح ہی سے ہم نے ملاقات کا انتظار شروع کردیا۔ ان تمام مہمانوں کو فیصل مسجد کے پہلو میں واقع’’ آئی آر ڈی گیسٹ ہاوس‘‘ میں ٹھہرایا گیا تھا، جب کہ ہم دوسرے پاکستانی مہمانوں کے ساتھ کسی اور جگہ مقیم تھے۔

انصاری صاحب کے دفتر میں تھے کہ مہمانوں کی آمد کی اطلاع ہوئی۔ آئی آر ڈی کے اُس وقت کے نوجوان اور متحرّک کار پردازوں میں برادرم علی طارق، ڈاکٹر محمّد اکرم ، مفتی محمّد عثمان، متین احمد شاہ اور چند اور بھی تھے، مگر اب یاد نہیں، شاید اُن ہی میں سے کسی نے ڈاکٹر انصاری کو مہمانوں کی آمد کی اطلاع کی۔ اسی اثنا یہ تمام حضرات، جو زیادہ تر شیروانی میں ملبوس تھے، دفتر میں داخل ہوگئے۔ چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد جو قہقہوں کا سلسلہ شروع ہوا، تو ہفتہ بھر جاری رہا۔ ہم بھی ملے، نام بتایا تو خاص طور پر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی بہت تپاک سے ملے، جس کا سبب یہ تھا کہ دونوں ہی خاص طور پر ہمارے شش ماہی مجلّے’’ السیرہ عالمی‘‘ سے بھرپور تعارف رکھتے تھے۔

رضی الاسلام ندوی تحقیقاتِ اسلامی کے مدیر تھے، جو مجلّہ’’ السیرہ‘‘ کے تبادلے میں ہمیں پابندی سے موصول ہوتا تھا۔ چائے کا دَور چلا، جس کے دَوران سب سے زیادہ بشاشت، تبسّم، اپنائیت اور لطائف ڈاکٹر صاحب ہی سے صادر ہو رہے تھے۔ لطائف کے بارے میں اُن کا مسلک بھی یہی تھا کہ’’ کوئی لطیفہ بُرا نہیں ہوتا‘‘، یہی سبب ہے کہ عام مجلسی لطائف کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے نجی یا محدود مجلسی لطائف بھی کسی طور کم تھے اور نہ ہی کم زور۔ چند لمحے یا چند ساعتیں، ہمیں اُن کے ساتھ منسلک ہونے میں ضرور لگیں، مگر پھر جو رشتہ قائم ہوا، اجنبیت تو کیا، تکلّف کا ہلکا سا شائبہ بھی درمیان میں نہ آسکا۔

سچ یوں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے علم و فضل کی دنیا کا ایک اور ’’لائٹ ٹاور‘‘ ہمیشہ کے لیے بُجھ گیا۔ تحقیق کی دنیا مزید سُونی ہوگئی۔ کردار کی جیتی جاگتی تعبیر استعاروں اور تلمیحات کے سمندر میں کھوگئی۔ سیرت کا خادم، قلم کا مجاہد اور اسلامی تہذیب کا ایک اور محافظ رخصت ہوگیا۔ اگر تصوّر میں کسی شخصیت کا علمی رُعب اور دِل موہ لینے والی مُسکراہٹ اکھٹے آجائیں، تو ڈاکٹر محمّد یاسین مظہر صدیقی کی صُورت بنتی ہے۔ ورنہ کبھی علم کا رُعب انسان کے اعصاب پر طاری ہو جاتا ہے، تو کہیں قہقہوں کا شور شخصیت کا وزن کم کردیتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے تاریخ سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا، مگر پھر اپنے والدِ محترم کی تشویق سے سیرت نگاری کی جانب متوجّہ ہوئے اور پھر وہی آپ کی اصل پہچان بنی۔ آپ کی عربی، اردو اور انگریزی زبان میں متعدّد کتب شایع ہوئیں۔ نیز، مختلف موضوعات پر، جن میں سیرتِ طیّبہؐ سب سے نمایاں ہے، پانچ سو کے قریب مقالات مختلف جرائد میں شایع ہوئے۔ نہایت سادہ، مگر منظّم زندگی بسر کرنے کے عادی، حد درجہ ملنسار، خور نواز، علم دوست، شفیق اور نہایت سیال قلم کے مالک تھے۔