آنحضرتﷺ سے صحابہ کرام ؓ کی محبت

October 25, 2020

اقصیٰ منور، صادق آباد

ہمارے پیارے نبی، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی محبّت ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ سورۃ التوبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اے نبیﷺ فرما دیجیے! اگر تمہارے آباؤ اجداد اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال، جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت، جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور وہ گھر، جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اُس کے رسول اور اللہ کے رستے میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں، تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’ تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مَیں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘بلاشبہ، آپؐ کی ذات ہی سب سے بڑھ کر محبّت کیے جانے کے قابل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی اداؤں کو قرآنِ پاک کا حصّہ بنا دیا۔آپﷺ کے چہرے کا آسمان کی طرف اُٹھنا، آپﷺ کا کلام، آپؐ کے شہر، جنگیں اور فتوحات، قیام اللّیل، دعوت و تبلیغ ، معراج، آپﷺ کے صحابہؓ، آپﷺ کی ازواجؓ، اہلِ بیتؓ، آپؐ کی ہجرت، اخلاق غرض پوری زندگی قرآن نے بیان کردی۔ کہیں آپؐ کی رضا میں اللہ کی رضا بتائی گئی۔ اگر آپؐ چادر لپیٹ لیں، تو اللہ پاک’’ یا ایّھا المزّمّل،‘‘ اور ’’یا ایھا المدّثر‘‘ کہہ کر مخاطب کرے، کفّار کے طعنوں پر’’ اِنا اعطیناک الکوثر‘‘ کی خوش خبری سُنائے۔ کہیں شاہد، کہیں مبشّر، تو کہیں نذیر پکارا گیا۔ سراجِ منیر، رئوف الرّحیم جیسے القابات سے نوازا گیا۔اللہ کو تو یہ بھی پسند نہیں کہ کوئی اُس کے محبوبؐ کے سامنے بلند آواز سے بات کرے۔اُنھیں روزِ محشر شفاعت کرنے والا بنایا گیا، ساقیٔ ٔ کوثر اور مقامِ محمود سے نوازا گیا۔

حضرت انس ؓفرماتے ہیں’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں، اُس نے ایمان کی حلاوت پالی۔ ایک وہ شخص کہ جس کو اللہ اور اُس کا رسولﷺ سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسری یہ کہ جس سے محبّت کرے، اللہ کے لیے کرے اور وہ شخص کہ جسے اللہ نے کفر سے بچا لیا ہو اور وہ اُس کی طرف لَوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے، جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘گویا حبِ رسول ﷺ کے بغیر حلاوتِ ایمانی کا پانا ناممکن ہے۔اِسی طرح خالی کھوکھلے دعووں سے سچّا عاشقِ رسولﷺ نہیں بنا جا سکتا۔ حقیقی عاشقِ رسولﷺ تو وہی ہے، جو آپؐ کے لائے ہوئے پیغام پر عمل پیرا ہو۔آپ ؐ کی سنّتوں کا اتباع کرے اور آپؐ کے ہر عمل کو عزیز از جان سمجھے۔حدیثِ نبویؐ ہے’’جس نے میری سنّت سے محبّت کی، اُس نے مجھ سے محبّت کی اور جس نے مجھ سے محبّت کی، وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔‘‘

حضورِ اکرمﷺ، صحابۂ کرامؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ایک دیہاتی حاضر ہوا اور کہا’’ یارسول اللہﷺ! قیامت کب آئے گی؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا’’تم نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے؟‘‘اُس نے عرض کیا’’مَیں نے اس کے لیے زیادہ نماز، روزے، صدقے کا سامان تو نہیں کیا، مگر مَیں اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبّت رکھتا ہوں۔‘‘ اِس پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’ (قیامت والے دن) آدمی اُسی کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبّت رکھتا ہے۔‘‘ حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ مَیں نے مسلمانوں کو اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اِتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا، جتنا اِس بات پر وہ خوش ہوئے۔کیسی عظیم اور خوش نصیب جماعت تھی…!! صحابۂ کرامؓ کے نزدیک تو اللہ کے رسولﷺ سے محبّت، اُن کا اتباع اور اُن پر جان نچھاور کرنا ہی زندگی کا حاصل تھا۔غزوۂ تبوک کے موقعے پرحضرت ابوبکر ؓ نے گھر کا سارا سامان خدمتِ نبوی ؐمیں پیش کردیا۔ حضرت عُمر ؓ نے گھر کا آدھا سامان اور حضرت عثمان ؓ نے تین سو اونٹ مع ساز و سامان آپؐ کی نذر کیے۔

حضرت عثمان ؓ کو صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب مکّہ بھیجا گیا، تو قریش نے کہا کہ’’ آپ چاہیں تو عُمرہ ادا کرسکتے ہیں‘‘ لیکن وفا کے پیکر کا جواب تھا کہ’’ اگر ایک سال تک بھی عُمرہ ملتوی کرنا پڑا، تب بھی مَیں رسول اللہﷺ کے بغیر عُمرہ نہیں کروں گا۔‘‘ پھر اُس منظر کا تصوّر کیجیے، جب صلح حدیبیہ کے موقعے پر عروہ بن مسعود اہلِ مکّہ کی طرف سے وفد کے قائد بنا کر بھیجے گئے۔ وہ حیرانی سے صحابۂ کرامؓ کا طرزِ عمل دیکھتے رہے اور واپس جاکر قریش سے یوں مخاطب ہوئے’’ اے اہلِ مکّہ! (حضرت)محمّد( ﷺ) کا خون بہانا کیسے ممکن ہے، جب کہ اُن کے صحابہؓ اُن کے وضو کے بچے پانی تک کو زمین پر نہیں گرنے دیتے۔وہ اس پانی کے حصول کے لیے یوں گرتے ہیں، جیسے باہم لڑ پڑیں گے۔ وہ آپ ؐ کے لعاب کو اپنے منہ پر مَل لیتے ہیں اور تعظیم کا یہ حال ہے کہ آپؐ کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔

مَیں قیصر و کسریٰ کے ہاں بھی گیا ہوں۔ نجاشی کا دربار بھی دیکھا ہے، مگر اصحابِ محمّدﷺ ،جو تعظیم محمّدﷺ کی کرتے ہیں، وہ کسی بادشاہ کو بھی اپنے محل میں حاصل نہیں۔‘‘ حضرت زید بن دثنہ ؓ کے عشقِ مصطفیٰﷺ کی مثال بھی سامنے ہے۔سولی دینے کی تیاری کی جا رہی ہے، زندگی ہر کسی کو پیاری ہے اور جب موت سامنے کھڑی ہو، تو سبھی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، مگر آسمان نے عشق کا ایسا نظارہ کم ہی دیکھا کہ خون کے پیاسے حضرت زید ؓ کے چاروں طرف کھڑے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا’’ زیدؓ ! کیا تجھے پسند ہے کہ آج تیری جگہ (حضرت)محمّدؐ(ﷺ) ہوتے اور تو اپنے اہل و عیال میں ہوتا؟‘‘ حضرت زیدؓ نے جواباً کہا’’ اللہ کی قسم! مَیں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ مَیں اپنے اہل وعیال میں ہوں اور حضرت محمّدﷺ کو کانٹا بھی چُبھے۔‘‘اور پھر سولی پر لٹک گئے۔حضرت ابوبکرؓ تو تھے ہی سراپا عشق۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں’’ یارِغار‘‘ جیسی عظیم الشّان فضیلت اور ’’ ثانی الثنین‘‘ جیسے لقب سے سرفراز فرمایا۔

ایک بار خانۂ کعبہ میں اسلام کے علانیہ اظہار پر کفّار اُن پر اس طرح ٹوٹ پڑے کہ گویا جان ہی سے مار ڈالا۔ لوگوں کے مخاطب کرنے پر بھی جواب نہ دیتے کہ سخت بے ہوشی کی کیفیت طاری تھی۔ شام کے وقت ذرا ہوش آیا، تو اس عاشقِ صادق کی زبان سے سب سے پہلے یہی الفاظ ادا ہوئے’’ مجھے بتائو! رسول اللہﷺ پر کیا گزری؟‘‘ والدہ کچھ کِھلانے پر مُصر تھیں، مگر وہ مسلسل اپنے محبوبؐ کے متعلق پوچھے جا رہے تھے۔ کھانے پر زیادہ اصرار کیا، تو فرمایا ’’ مَیں نے اللہ سے عہد کر رکھا ہے، جب تک خدمتِ نبویؐ میں حاضر نہ ہو جائوں، تب تک کچھ کھائوں گا نہ پیوں گا۔‘‘ رات ڈھلی، تو والدہ اور بہن آپؓ کو سہارا دے کر چل پڑیں، یہاں تک کہ دارِارقم میں آپؐ کے پاس پہنچا دیا۔ آپؐ نے جب اپنے عاشق کو اِس حال میں دیکھا، تو اُن پر جُھک پڑے اور بوسہ دیا۔ صدیقِ اکبرؓ کی حالت دیکھ کر نبیٔ رحمتﷺ پر رقّت طاری ہوگئی۔ جنگِ اُحد کے دن حضرت ابو دجانہ ؓ آپؐ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے۔

پُشت تیروں سے چھلنی ہوگئی، مگر آگے سے نہ ہٹے۔حضرت ابوطلحہ آپ ؐ کی طرف پھینکے جانے والے تیروں کو اپنے ہاتھوں پر روکتے رہے، جس سے ہاتھ شل ہوگئے۔اسی غزوے میں سرکارِ دوعالمﷺ کا چہرۂ انور خَود کی کڑیاں رخسارِ اقدس میں گھس جانے کے سبب زخمی ہوا،تو حضرت ابوسعید خدری ؓ کے والد، حضرت ابوسنان ؓآپ کے چہرۂ اطہر سے خون چُوس کر نگل لیتے۔ اُن سے کہا گیا کہ تم حضورﷺ کا خون پی رہے ہو؟‘‘ یہ سُن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا’’ میراخون اُن کے خون کے ساتھ مل گیا۔ اُنہیں جہنم کی آگ نہ لگے گی۔‘‘اِسی جنگ میں جب کفّار نے حضورﷺ کی شہادت کی خبر اُڑائی، تو ایک انصاری عورت پردے میں مدینہ منوّرہ سے میدانِ اُحد کی طرف چل پڑیں۔

راستے میں والد، بیٹے، خاوند اور بھائی کی شہادت کی اطلاع ملی، لیکن وہ پھر بھی آگے بڑھتی رہیں اور ہر بار یہی کہتیں’’اللہ کے رسولﷺ کی کیا خبر ہے؟‘‘ جب آپؐ تک پہنچیں، تو فرمایا’’اے اللہ کے رسولﷺ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! جب آپؐ سلامت ہیں، تو مجھے اپنے شہید ہونے والوں کی کوئی پروا نہیں۔ اب ہر مصیبت ہلکی اور آسان ہے۔‘‘حضرت زیاد بن السکن ؓکی سعادت کے بھی کیا ہی کہنے۔میدانِ اُحد میں آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی ہوئے۔ آخری سانسیں باقی تھیں کہ آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو حکم دیا’’ زیادؓ کو میرے قریب لائو۔‘‘ آپ ؐکے قریب پہنچے اور آپؐ کے قدموں میں سَر رکھ دیا۔ اسی حالت میں کہ رخسار آپؐ کے مبارک پائوں کو چُھو رہا تھا، جان خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی۔؎’’ بوقتِ ذبح اُن کے زیرِ پائے ہے…یہ نصیب! اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔‘‘

جنگِ بدرکے دن رسول اللہﷺ صحابۂ کرامؓ کی صفیں سیدھی فرما رہے تھے۔ حضرت سواد بن حضیرؓ صف سے باہر نکلے ہوئے تھے، تو آپؐ نے تیر اُن کے پیٹ میں چبھوتے ہوئے فرمایا’’اے سوادؓ! سیدھے ہوجائو۔‘‘ اُنہوں نے عرض کیا’’آپؐ کے تیر چبھونے سے مجھے تکلیف ہوئی ہے، لہٰذا مجھے بدلہ دیں۔‘‘ اس پر آپؐ نے اپنے جسمِ اطہر سے کپڑا ہٹا دیا اور فرمایا’’ لو ،اپنا بدلہ لے لو۔‘‘ حضرت سوادؓ بدن مبارک سے چمٹ گئے اور بوسے لینے لگے۔ آپؐ کے پوچھنے پر کہ’’ ایسا کیوں کیا؟‘‘ عرض کیا’’اے اللہ کے رسولﷺ! آپؐ دیکھ رہے ہیں، لڑائی کا موقع آ گیا ہے، شاید مَیں شہید ہو جائوں، تو مَیں نے چاہا کہ آپؐ سے آخری ملاقات اِس طرح ہو کہ میری کھال سے آپؐ کی کھال مل جائے۔‘‘ اس پر آپؐ نے اُن کے لیے دُعا فرمائی۔حضرت عبّاسؓ کے گھر کے پرنالے کا پانی اس جگہ گرتا تھا، جہاں سے حضرت عُمرؓ گزرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ نئے کپڑے پہنے وہاں سے گزرے، تو کپڑے ناپاک ہو گئے۔ آپ ؓاُس وقت خلیفہ تھے۔ حکم فرمایا’’ پرنالے کو اکھاڑ دیا جائے۔‘‘ پھر گھر گئے، دوسرے کپڑے پہن کر مسجد آئے اور جمعے کی نماز پڑھائی۔حضرت عبّاس ؓآپؓ کے پاس آئے اور کہا ’’ اللہ کی قسم! یہ پرنالہ حضورﷺ نے لگایا تھا۔

آپ ؐ نے اُسے اکھڑوا دیا۔‘‘یہ سُن کر آپؓ گھبرا گئے اور کہا’’مَیں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ میری کمر پر چڑھ کر یہ پرنالہ وہیں لگا دیں۔ جہاں حضورﷺ نے لگایا تھا۔‘‘ حضرت عبّاسؓ نے حضرت عُمرؓ کے دونوں کندھوں پر پائوں رکھ کر وہیں پرنالہ لگا دیا۔ ایک مرتبہ آپﷺ کو سخت فاقے کی نوبت آگئی۔ حضرت علی ؓ کو معلوم ہوا، تو کام کی تلاش میں نکلے تاکہ کھانے کا انتظام کرسکیں۔ ایک یہودی کے ہاں باغ میں پانی کے ڈول نکالنے کا کام مل گیا۔ آپؓ نے سترہ ڈول نکالے اور ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور طے تھی۔ یہودی نے تمام اقسام کی کھجوریں سامنے ڈھیر کر دیں تاکہ اپنی پسند کی کھجور لے سکیں۔آپؓ نے سترہ عجوہ کھجوریں لیں اور خدمتِ اقدسؐ میں پیش کردیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا’’ اے ابوالحسنؓ! یہ کھجوریں کہاں سے ملیں؟‘‘حضرت علی ؓ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسولﷺ، مجھے آپؐ کے فاقے کی خبر ملی، تو مَیں کام کی تلاش میں نکلا تاکہ کھانے کی کوئی چیز حاصل کرسکوں۔‘‘آپ ؐ نے فرمایا ’’ کیا تم نے اللہ اور اُس کے رسولؐ کی محبّت میں ایسا کیا؟‘‘ عرض کیا ’’جی ہاں۔‘‘ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’جو بھی اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبّت کرتا ہے۔

فقر و فاقہ اُس کی طرف اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے، جتنی تیزی سے پانی کا ریلا ڈھلوان کی طرف آتا ہے۔ لہٰذا، جو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبّت کرتا ہو، اُسے چاہیے کہ وہ بلا اور آزمائش کے لیے ڈھال تیار کرلے۔‘‘ یعنی صبرو قناعت کے لیے تیار رہے۔ آپؐ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا’’بیٹھ جائو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مسجد میں داخل ہو رہے تھے، جب یہ الفاظ سُنے، تو وہیں دروازے پر بیٹھ گئے۔ آپؐ نے دیکھا، تو فرمایا ’’عبداللہ! اندر آجائو۔‘‘ایک صحابیؓ کے رنگین کپڑوں کو آپؐ نے ناپسند کیا، تو اُنھوں نے معلوم ہونے پر کپڑے تنور میں ڈال دیے۔

صحابۂ کرامؓ کے اِس عشق اور والہانہ وارفتگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے لیے حضورﷺسے جدا ہونا کس قدر اذیّت کا سب ہوتا ہوگا۔حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو ایک مہم پر روانہ ہونے کا حکم ہوا، تو وہ آپؐ کی محبّت میں رو دیئے۔اہلِ مدینہ کے لیے وہ دن کس قدر بھاری ہوگا، جب سرورِ کونینﷺ دنیا سے رخصت ہوئے۔ مدینہ خالی، ویران اور اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔ کئی صحابہؓ صدمے سے ہوش وحواس کھو بیٹھے۔ کئی جنگلوں میں نکل گئے،تو بہت سے گم صم رہنے لگے۔ حضرت عُمرؓ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کا صدمے سے یہ حال تھا کہ تلوار لیے مسجد میں کھڑے ہو گئے کہ جو بھی آپؐ کے انتقال کا کہے گا، اُس کی گردن مار دوں گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے سمجھانے پر غم سے زمین پر گر پڑے۔ حضرت فاطمہ ؓ آپ ؐ کے غم میں بالکل بُجھ گئیں۔

آپؐ کے وصال کے بعد کسی نے اُنہیں ہنستا نہ دیکھا۔عبداللہ بن زیدؓ کو جب آپؐ کے سانحۂ ارتحال کی خبر ملی، تو اُن کے منہ سے یہ دعائیہ کلمات نکلے’’اے اللہ! میری بصارت لے لے کہ اب مَیں اپنے محبوبؐ کے بعد کسی کو نہ دیکھوں۔‘‘اُن کے الفاظ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئے۔جس رات آپؐ کی تدفین ہوئی، دوسرے روز حضرت بلال ؓ فجر کی اذان دینے لگے، تو’’ اشہد ان محمّد رسول اللہ‘‘ کہتے ہوئے زاروقطار رونے لگے۔ حضرت عتاب بن اسید، جو مکّے کے والی تھے، وصال کی خبر پر گھاٹی میں چلے گئے۔حضرت سہیل بن عمرو ؓ اُن کے پاس آئے اور کہا’’ لوگوں میں چلیے، اُن سے بات کیجیے۔‘‘ حضرت عتاب ؓ کہنے لگے’’ سیّدِ عالمﷺ کی وفات سے مجھ میں کلام کی طاقت نہیں رہی۔‘‘ایک عورت ،حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگیں کہ’’ مجھے حضور اقدسﷺ کے حجرہ مبارکہ کی زیارت کروا دیجیے۔‘‘اُمّ المومنین نے حجرہ مبارکہ کھولا، تو وہ خاتون روتی رہیں اور روتے روتے روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔

ماہِ ربیع الاوّل ہمیں اپنے محاسبے کی دعوت دیتا ہے کہ ہم ’’ غلامیٔ رسولؐ میں موت بھی قبول ہے، جو ہو نہ عشقِ مصطفیٰ ؐتو زندگی فضول ہے‘‘جیسے نعرے تو لگاتے ہیں، لیکن کیا یہ صرف زبانی کلامی دعویٰ ہے ؟ ہم عملی زندگی میں اِس پر کتنا عمل کرتے ہیں؟مشہور ہے، جس سے محبّت ہوتی ہے، اُس کا ذکر ہمہ وقت زبان پر رہتا ہے، تو جو سچّا عاشقِ رسول ہو گا، اُس کی زبان پر تذکرۂ رسولؐ ہی ہوگا۔ وہ ہر کسی سے محبوبِ خدا ؐہی کی بات کرے گا۔ اُس کے ہر ہر عمل سے محبّتِ مصطفیٰ ؐ جھلک رہی ہوگی۔ گویا اُس کی یہ حالت ہو گی؎’’یا ترا تذکرہ کرے ہر شخص …یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے۔‘‘لیکن کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے۔