’’ربیعُ الاوّل‘‘ جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاندؐ

October 25, 2020

’’ربیع الاوّل‘‘…وہ ماہِ مبارک جب امام الانبیاء،سیدالمرسلین،خاتم النبیین، پیغمبر امن و سلامتی، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ با سعادت ہوئی، آفتابِ رسالت طلوع ہوا، دنیا توحید کے نور سے روشن و منوّر ہوئی ، تاریخ کے مثالی دَور کا آغاز ہوا۔یہ ماہِ مبارک سرکارِدو جہاںﷺ کی ولادت اور آپﷺ کی تشریف آورری کے حوالے سے ماہ و سال کی پوری تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔ ’’ربیع الاوّل‘‘ کے لغوی معنیٰ’’ پہلی بہار‘‘ کے ہیں۔

مورخین نے ’’ربیع الاوّل‘‘ کو ربیع الاوّل کہنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب اس مہینے کا نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو یہ مہینہ فصلِ ربیع یعنی موسمِ بہار کے آغاز میں واقع ہوا، اس بناء پر اسے ’’ربیع الاوّل ‘‘سے موسوم کردیا گیا۔ جب کہ علّامہ سخاوی اپنی کتاب ’’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘‘ میں اس کی وجۂ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’مختلف مقاصد اور ضروریات کے پیش نظر سفر کرنے والے اہلِ عرب، موسمِ بہار گزارنے کی مناسبت سے اس مہینے میں خصوصی طور پر اپنے گھروں میں اقامت اختیار کرتے تھے اور وہ بہار کے ایّام اپنے گھروں میں ہی گزارتے تھے، لہٰذا اس بناء پر اس مہینے کا نام ’’ربیع الاوّل‘‘ رکھ دیا گیا۔’’بلوغ الارب فی احوال العرب‘‘ کے مؤلف محمود شکری آلوسی نے مسعودی کے حوالے سے ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ ’’ربیع‘‘ کے معنیٰ خوش حالی اور فارغ البالی کے ہیں، چناں چہ اہلِ عرب صفر کے مہینے میں اپنی مصروفیات کے باعث جو کچھ کماتے، اس کی وجہ سے ان کے ہاں مالی آسودگی اور خوش حالی ہوجاتی تھی، جس کے باعث وہ عموماً ’’ربیع الاوّل‘‘ اور ’’ربیع الثّانی‘‘ کے مہینوں میں فارغ البال ہوجاتے اور ان ایّام کو اپنے گھروں میں بسر کرتے تھے۔

اسلامی تاریخ میں ماہِ ربیع الاول کو جو عظمت، تقدس، بزرگی و برتری حاصل ہے، وہ صرف اور صرف فخرِ دو عالم، نیرِاعظم، سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، صاحبِ لوح و قلم، سیّدِ عرب و عجم، صبحِ درخشاں، نیّرِ تاباں، مہرِ درخشاں، ساقیِ کوثر، شافعِ محشر، مرسلِ داور، شاہِ اُمم، محبوب رب العالمین، سیدالمرسلین، خاتم النبیین،رحمۃ للعالمین، سرورِ کونین، بشیر و نذیر، سراج منیر، امام الانبیاء، ماہِ عرب، آفتاب دو عالم حضرت محمّد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی بدولت حاصل ہے۔ یہ وہ بابرکت اور بہار آفرین مہینہ ہے، جس کی آمد سے چمنستانِ دہر کی مرجھائی کلیاں کِھل اٹھیں، خزاں رسیدہ گلستان سرسبز و شاداب ہوگئے، کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎

لھٰذا الشّھر فی الاسلام فضل

و منقبۃ تفوّق علیٰ الشّھور

ربیع فی ربیع فی ربیعٍ

ونور فوق نورٍ فوق نورٍ

یعنی اسلام میں اس ماہِ مبارک کوخاص عظمت و فضیلت حا صل ہے، جو بعض اعتبار سے اور مہینوں سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ خاص فضیلت ’’ظہورِ قدسی‘‘ یعنی حضوراکرم ﷺ کی ولادت اور آپﷺ کی تشریف آوری ہے، آپﷺ کی آمد دنیا کی بہار کا سبب ہے، پھر جس مہینے میں آپﷺ تشریف لائے، وہ ربیع در ربیع، یعنی بہار ہی بہار اور نور ہی نور ہے۔

آپﷺ کی ولادت باسعادت باختلافِ روایات یعنی مختلف مؤرخین اور سیرت نگاروں نے جوروایات بیان کی ہیں، ان میں تین روایات 8، 9 اور 12 ربیع الاوّل بیان کی جاتی ہیں۔ 12ربیع الاوّل 1عام الفیل کو زیادہ شہرت حاصل ہے، مشہور روایت 12 ربیع الاوّل ہے۔’’ربیع الاوّل‘‘ (1 عام الفیل 52 قبل ہجرت، اپریل 571ء) میں محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کا صرف ظہورِ قدسی نہیں ہوا، بلکہ عالمِ نو طلوع ہوا، تاریخ عالم نے نئے سفر کا آغاز کیا، اس ماہِ مبارک میں حضرت آمنہ نے سعادت مند بیٹے کو جنم ہی نہیں دیا، بلکہ مادرِ گیتی نے ایک تاریخ ساز اور بے مثال انقلاب کو جنم دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ کی تشریف آوری سے دنیا کو شرفِ انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا، انسانی زندگی کا ہر گوشہ اس سراج منیرؐ کی تشریف آوری سے جگمگانے لگا۔ خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی، انسانیت کفر و شرک اور ظلم و جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم کی روشنی اور توحید کے نور سے منور ہوئی۔

یہ ربیع الاوّل کا مہینہ، دو شنبہ کا دن اور صبح صادق کی ضیاء بار گھڑی تھی۔ رات کی تاریکی چھٹ رہی تھی اور دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا، جب آفتاب عالم تاب، سرکارِ دوجہاں، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت سے کائنات میں ازلی سعادت اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔رُشدو ہدایت اور ایمان کی ایسی بہار آئی کہ جس کے بعد خزاں نہیں۔ ’’ربیع الاوّل‘‘ پہلی اور ابدی بہار بن کر انسانیت کو حیاتِ جاودانی عطا کر گئی۔ جسٹس (ر) میاں محبوب احمد کے الفاظ میں جو انہوں نے ممتاز مصنّف محمد متین خالد کی کتاب ’’جب حضورؐ آئے‘‘ کے دیباچے میں ’’حیاتِ نور‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے ہیں، یہ ابدی بہار تھی، موصوف کیا خُوب لکھتے ہیں’’اس کائناتِ رنگ و بُو میں بہت سی بہاریں مہکیں اور خزاں کا شکار ہوگئیں، بہت سے سورج اُبھرے اور فنا کے گھاٹ اتر گئے۔ بہت سے چاند چمکے اور پھر گہنا گئے، بہت سے پھول کِھلے، پھر مُرجھا گئے، ہاں ایک بہار ایسی کہ جسے جانِ بہاراں کہیے، خزاں اس کے قریب نہ آسکی، ایک سراجِ منیرؐ ایسا کہ غروب کی سیاہیاں اس سے آنکھیں نہ ملاسکیں، ہاں، ہاں طلعت و زیبائی کا ایسا پیکر کہ کوئی دھندلکا سایہ اس کے جلووں کو گہنا نہ سکا، ایسا رشکِ گلستاں کہ جس کے تلووں کو چُوم لینے کا شرف رکھنے والی پتیاں بھی مُرجھانے سے محفوظ رہیں، وہ جانِ بہاراں، سراجِ منیر، بدرِ فلکِ رسالت، فخرِ گلزارِ نبوت، ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، ہمارے رہبر، حضرت محمد ﷺ ہیں، جو ہر مومن کی نظر کا نور، روح کا قرار اور دل کا سرور ہیں۔‘‘

محبوبِ ربّ العالمین، سیّد المرسلین، خاتم النّبیین، فخرِموجودات، سرورِکائنات، حاملِ قرآں، نورِ مبین، رحمۃ لّلعالمین، اِمام الاوّلین و الآخرین، صاحب قاب قوسین، مولائے کُل، ختم الرُّسل، محسنِ انسانیت،رہبرِ آدمیت، یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، سیّدِ عرب و عجم،ہادیِ عالم، حضرت محمد ﷺ کا ظہورِ قدسی، آپﷺ کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیاموڑ اورفلاح و کامرانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔ انسانیت کو جینے کا حوصلہ اور زندہ رہنے کا سلیقہ عطا کیا۔ اس نورِ مبینؐ کی آمد سے عالمِ شش جہات کا ذرّہ ذرّہ اور حیاتِ انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا۔

ظلم، جہالت، ناانصافی، کفروشرک اور بت پرستی میں مبتلا انسانیت مثالی ضابطۂ حیات، احترامِ انسانیت کے شعور سے با خبر، عدل کی بالادستی کے تصوّر سے آگاہ اور ایمان کے نور سے منوّر ہوئی۔ عالمِ انسانیت کی خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے سے بندگان ِخدا کو وہ منزل ملی، جس سے توحید کا نورِ عام ہو اور کفروشرک کی تاریکی چھٹ گئی۔دعائے خلیلؑ، تمنائے کلیمؑ اور نویدِ مسیحاؑ حضرت محمدﷺ کے ظہورِ قدسی سے انسانیت کی صبحِ سعادت کا آغاز ہوا، ایسا تاریخ ساز انقلاب رونما ہوا جس نے توحید و رسالت کے نور کو عام کر کے انسانی عزّت و وقار اور اعلیٰ انسانی قدروں کو بحال کیا۔صدا بلند ہوئی کہ؎

مبارک ہو شہِ ہر دوسرا تشریف لے آئے

مبارک ہو محمد مصطفیٰؐ تشریف لے آئے

مبارک ہو، غم گُسارِ بے کساں تشریف لے آئے

مبارک ہو، شفیع عاصیاں تشریف لے آئے

مبارک ہو، رسولِ محتشمؐ تشریف لے آئے

مبارک ہو، نبیِ محترمؐ تشریف لے آئے

وہ آئے، جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی

وہ آئے، جن کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی

وہ آئے، جن کو ابراہیمؑ کا نورِ نظر کہیے

وہ آئے، جن کو اسمٰعیلؑ کا لختِ جگر کہیے

وہ آئے، جن کے ہر نقشِ قدم کو رہنما کہیے

وہ آئے، جن کے فرمانے کو فرمانِ خدا کہیے

(ماہرالقادری)

معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میں’’اس رات ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے، آتش کدۂ فارس بجھ گیا۔ دریائے ساوہ خشک ہو گیا،لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں،بلکہ شانِ عجم،شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے،آتش کدۂ فارس ہی نہیں، بلکہ آتش کدۂ کفر،آذر کدۂ گمراہی سرد ہو کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی۔ بُت کدے خاک میں مل گئے، شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔توحید کا غلغلہ اٹھا، چمنستانِ سعادت میں بہار آ گئی،آفتاب ہدایت کی شعائیں ہرطرف پھیل گئیں۔اخلاقِ انسانی کا پرتو قدس سے چمک اٹھا۔یعنی یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، شاہِ حرم، حکمرانِ عرب، فرماں روائے عالم، شہنشاہِ کونینؐ عالمِ قُدس سے عالمِ امکان میں تشریف فرما ہوئے۔اللّٰھمّ صل ّ علیہ و علیٰ اٰ لہ و اصحابہ و سلّم۔(شبلی نعمانی؍سیرت النبیؐ) اور پھر حفیظ جالندھری اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خُوب کہتے ہیں؎

وہ دن آیا کہ پورے ہو گئے تورات کے وعدے

خدا نے آج ایفا کر دیے ہر بات کے وعدے

ربیعُ الاوّل اُمیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا

دُعائوں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا

جہاں میں جشنِ صبحِ عید کا سامان ہوتا تھا

اُدھر شیطان اپنی ناکامی پہ روتا تھا

سرِ فاراں پہ لہرانے لگا جب نور کا جھنڈا

ہُوا اک آہ بھر کر فارس کا آتش کدہ ٹھنڈا

ندا آئی، دریچے کھول دو ایوانِ قدرت کے

نظّارے خود کرے گی آج قدرت شانِ قدرت کے

صدا ہاتف نے دی اے ساکنانِ خطۂ ہستی

ہوئی جاتی ہے پھر آباد یہ اُجڑی ہوئی بستی

ضعیفوں، بے کسوں، آفت نصیبوں کو مبارک ہو

یتیموں کو، غلاموں کو، غریبوں کو مبارک ہو

مبارک ہو کہ ختم المرسلیںؐ تشریف لے آئے

جناب رحمۃللّعالمیںؐ تشریف لے آئے

بصد اندازِ یکتائی بغایت شانِ زیبائی

امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی

سلام اے آمنہ کے لالؐ، اے محبوبِ سبحانی

سلام اے فخرِ موجوداتؐ، فخرِ نوعِ انسانی

سلام اے ظلِّ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی

ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی

سلام اے سروحدتؐ، اے سراج بزم ایمانی

زہے یہ عزّت افزائی، زہے تشریف ارزانی!

فخرِ موجودات، باعثِ تخلیق کائنات، شافعِ محشر، ساقی کوثر، صاحبِ لوح و قلم، محمدِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا ظہور قدسی اور آپﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری پوری کائنات پر پروردگار عالم کا سب سے عظیم احسان ہے۔ آپﷺ کی ذاتِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے جو بلند مقام، جو عظمت و رفعت اور محبوبیت عطا فرمائی، اس میں کوئی آپﷺ کا شریک وسہیم نہیں۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا’’اولادِ آدم کا خلاصہ (منتخب اور مقدّس ہستیاں) پانچ ہیں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ،حضرت موسیٰؑ،حضرت عیسیٰؑ اور میں، یعنی حضرت محمد ﷺ اور محمدؐ ان میں سب سے افضل مقام پر فائز ہیں۔‘‘ (ابنِ عساکر)

ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ، مشہور امریکی ماہر فلکیات اور عیسائی مؤرّخ ہیں، انہوں نے اور ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی نام ور شخصیات کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کیا، اس مطالعے کا حاصل انہوں نے 572 صفحات کی ایک انگریزی کتاب "The 100" Aranking of the Most Influential Persons in history کی صورت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور متعدّد ایڈیشن شائع ہوئے۔

اس نے عالمی سطح پر بہت شہرت پائی، اس کتاب میں سرکارِ دوجہاں، حضرت محمد مصطفیؐ کو سرفہرست رکھا گیا ہے، کیوں کہ مصنف کے مطالعے کے مطابق آپؐ دنیا کے سب سے عظیم، منفرد اور انسانی تاریخ کے نمایاں ترین انسان ہیں۔ ہارٹ میخائیل لکھتا ہے ’’قارئین میں سے ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو تعجب ہو کہ میں نے دنیا جہاں کی مؤثر ترین شخصیات میں ’’محمدؐ‘‘ کو سرفہرست کیوں رکھا ہے؟ اور وہ مجھ سے اس کی وجہ طلب کریں گے، حالاںکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف وہی (حضرت محمدﷺ)ایک عظیم انسان تھے، جو دینی اور دنیوی اعتبار سے غیرمعمولی طور پر کامیاب و کامران اور سرفراز ٹھہرے‘‘۔موصوف مزید رقمطراز ہے’’میرا یہ انتخاب کہ محمدؐ دنیا کی تمام انتہائی بااثر شخصیتوں میں سرفہرست ہیں، کچھ قارئین کو اچنبھے میں ڈال سکتا ہے، کچھ اس پر معترض ہوسکتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ محمدﷺ تاریخ کے واحد شخص ہیں،جنہوں نے ایک عظیم ترین مذہب کی بنیاد رکھی اور اس کی اشاعت کی،ان کے وصال کے چودہ سو سال بعد آج بھی ان کے اثرات غالب اور طاقت ور ہیں‘‘۔

63 سال یہ نورِ ازلی و ابدی دنیا کو غیر فانی تنویرات سے منور اور مستنیر کرنے کے بعد اسی مہینے میں2 شنبہ12 ربیع الاول 11ھ کو ’’الصّلوٰۃ وما ملکت ایمانکُم‘‘ نماز اورغلام۔ (یعنی ان دونوں کا خاص اہتمام اور خیال رکھنا) اور ’’بل الرّفیق الاعلیٰ‘‘ بلکہ وصال رفیق اعلیٰ (اللہ رب العزت کا دیدار اور اس سے شرفِ ملاقات) مطلوب ہے، فرماتے ہوئے وصال فرما گئے اور روحِ پاک عالمِ قدس میں پہنچ گئی۔؎

مولایَ صلِّ وسلّم دائماً ابداً

علیٰ حبیبیک خیرالخلقِ کُلّھم

محمدٌ سیّدالکونین والثقلین

والفریقین من عُربٍ ومن عجم