سوشل میڈیا کی صحبت

November 22, 2020

شاہد اے خان

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں،’’کوئی شخص ایسا نہیں ،جس سے کوئی محبّت کرنے والا اور کوئی نفرت کرنے والا نہ ہو،جب ایسی ہی بات ہے، تو آدمی کو اللہ کی اطاعت کرنے والوں کی صحبت میں رہنا چاہیے۔ ‘‘حمّاد بن واقد الصفار کہتے ہیں کہ’’ مَیں ایک دن مالک بن دینار کی خدمت میں حاضر ہواتو دیکھا کہ وہ تنہا بیٹھے ہیں اور ان کے پہلو میں کتا اپنی ناک زمین پر رکھے ہوئے ہے، مَیں اُسے ہٹانے لگا تو فرمایا،’’چھوڑو، یہ بُرے ہم نشیں سے بہتر ہے، یہ مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ ‘‘یعنی بُرے شخص کی صحبت نقصان کا باعث ہوتی ہے، اس سے تو بہتر یہ ہے کہ آدمی تنہا ہی رہ لے۔ کہتے ہیں، ’’انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ ہم جس طرح کے لوگوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں ،انہی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔جیسے کوئلہ فروش کے ساتھ بیٹھنےوالے کے ہاتھ کالے ہوجاتے ہیں اور عطر فروش کے پاس بیٹھنے والے کے پاس سے خوش بو آتی ہے۔‘‘

پہلے زمانے میںصحبت کا مطلب لوگوں سے بالمشافہ ملاقات سمجھا جاتا تھا۔ یعنی، آپ جس قسم کے لوگوں کے ساتھ اُٹھ بیٹھ رہے ہیں، وہ آپ کا سماجی دائرہ قرار پاتے،لیکن اب جدید دَور میں صحبت کے معنی بھی بدل گئے ہیں۔ اب یہ لوگوں کے آپس کے میل جول سے آگے بڑھ کر سوشل نیٹ ورکنگ،موبائل فون پر بات چیت، واٹس ایپ اور دیگر اپلی کیشنزتک پہنچ گئی ہے۔اب فیس بک، ٹوئیٹر، اسکائپ وغیرہ پر بات چیت ، ملاقات ہی کو صحبت کہا جانے لگا ہے۔ویسے دنیا چاہے کتنی ہی کیوں نہ بدل جائے، صحبت اختیار کرنے کے مسلمہ اصول تبدیل نہیں ہوسکتے۔اور سوشل میڈیا پر تو کسی سے دوستی کرنے، روابط رکھنے میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یاد رہے، صحبت کے حوالے سے اصول ہمارے دین نے طے کر دیئے ہیں۔

صحبت کی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن نے اسے براہِ راست موضو ع بنایا اور اللہ تعالی نے انسانوں کو ہدایت کی کہ راست باز، نیک اور صالح لوگوںکی صحبت اختیار کرو۔ اللہ پاک سورۂ توبہ میں فرماتاہے’’ اے اہلِ ایمان ! اللہ سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو۔‘‘ اچھی اور بُری صحبت کا فرق نبی کریمﷺ نے بہت ہی اچھی مثال سے سمجھایا ۔ صحیح بخاری کی روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اچھے اوربُرے ساتھی کی مثال ایسی ہے، جیسے مُشک والا اور لوہاروں کی بھٹّی، تو مشک والے کے پاس سے تم بغیر فائدے کے واپس نہ ہوگے یا تو اسے خریدو گے یا اس کی بو پاؤ گے اور لوہار کی بھٹّی تمہارا جسم ، کپڑے جلادے گی یا تم اس کی بدبو سونگھو گے۔‘‘

یاد رکھیں، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر آپ جو چہرے دیکھ رہے ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ اصلی ہوں ۔اس لیے اَن جان لوگوں سے دوستیاں نہیں کر نی چاہئیں۔مشاہدے میں ہے کہ کئی افراد فیک پروفائل پکچرز لگا کر، اپنے بارے میں غلط معلومات فراہم کرکے اپنی ایک جھوٹی شخصیت گھڑ لیتے ہیں، جس سے متاثر ہو کر دوستیاںکرنے والوں کا انجام سوائے پریشانی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ خواتین اور لڑکیوں کو توسوشل نیٹ ورکنگ کرتے ہوئے اور بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہےکہ پروفائل سے پکچرز لے کر، ایڈٹ کرکے یا لڑکیوں کوشادی کےجال میں پھنسا کراکثر لوگ بلیک میلنگ اور خواتین کی اسمگلنگ تک کرتے ہیں۔

قصّہ مختصر،سوشل میڈیا استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں، مگر ٹیکنالوجی کو بس اسی حد تک استعمال کرنا چاہیے کہ وہ آپ کے لیے زحمت نہ بنے۔ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی ان جان شخص سے دوستی نہ کریں۔ صرف اپنے قریبی دوستوں، رشتے داروں ہی کو اپنے حلقۂ احباب میں شامل رکھیں۔ اپنی ،اپنے خاندان خصوصاً گھر کی خواتین کی تصاویر ہر گزشیئر نہ کریں۔ یعنی انٹرنیٹ پر بھی تعلقات اور صحبت کے اسلامی اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں، اس طرح آپ کئی پریشانیوں سے بچے رہیں گے۔