قابلِ رشک زندگی

November 27, 2020

(گزشتہ سے پیوستہ)

مَیں نے اپنے برادرِ مکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی زندگی کو اِس لیے قابلِ رشک قرار دِیا ہے کہ وہ زیادہ تر اَللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول، علم و عمل کے فروغ اَور خدمت ِخلق میں گزری ۔ ہمارے قبلہ دادا عبدالحمید اور قبلہ نانا سعید احمد بڑے عالمِ دین، حافظ ِقرآن اور دَرویش صفت انسان تھے۔ اُن کا تعلق یوپی کے ضلع مظفرنگر سے تھا جو ایک مردم خیز خطہ تھا۔ یہاں سے سید اسمٰعیل شہیدؒ کی تحریکِ مجاہدین میں حصّہ لینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں رضاکار بالاکوٹ گئے تھے۔ ہمارے والد جناب عبدالغفار شیخ، مولانا ظفر علی خاں کے بڑے مداح تھے۔ وہ صبح سویرے ہمیں جگا لیتے، قرآنِ حکیم کی سورتیں سنتے اور بڑے ذوق شوق سے ظفر علی خاں کے اشعار سناتے اور دُعا فرماتے کہ میری اولاد بھی صحافت میں اُن کے نقشِ قدم پر چل کر نام پیدا کرے۔

والدین کے مثالی طرزِعمل کی بدولت ہم سارے بہن بھائی احترام اَور محبت کے رشتوں میں جڑے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ پاکستان آنے کے بعد ہمیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے اور وَالد صاحب کی دعاؤں کے طفیل ہم دونوں بھائی کوچۂ صحافت میں آ نکلے۔ اِس کا بنیادی مقصد ایک ایسے ماہنامے کا اجرا تھا جس کے ذریعے اُردو زَبان کا دامن وسیع کیا جائے اور اَیسی تحریریں شائع کی جائیں جو افراد اَور خاندانوں کی کردارسازی کرتی رہیں، اُن کے ذہنوں میں اُمید اور یقین کی شمعیں روشن رکھیں اور اِسلام اور پاکستان کے ساتھ تعلق میں گہرائی پیدا کریں۔ 1960 کے آخر میں ادارہ اُردو ڈائجسٹ قائم ہوا جس کے تحت ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زِندگی اور ملتان سے روزنامہ جسارت جاری ہوئے۔ ہم دونوں بھائیوں کا ساٹھ سالہ صحافتی، تحقیقی اور فلاحِ عامہ کا سفر اپنے دامن میں حیرت انگیز واقعات کا خزینہ لیے ہوئے ہے۔

1971میں مشرقی پاکستان کے حالات قابو سے باہر ہوئے، تو لاہور کے سنجیدہ حلقوں نے ’دی پاکستان فرنٹ‘ کے نام سے ایک فورم قائم کیا جس کے صدر جسٹس (ر) بدیع الزماں کیکاؤس، نائب صدر بیرسٹر ایم انور، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی منتخب ہوئے جبکہ مجھے سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جناب سجاد میر جو ہفت روزہ زِندگی سے وابستہ تھے، وہ پاکستان فرنٹ میں بڑے فعال تھے۔ یہ فرنٹ اربابِ حکومت کو اپنی سفارشات بھیجتا رہا۔ 16دسمبر کو سرِشام مشرقی پاکستان کا سقوط ہو گیا۔ فرنٹ نے اگلے دن احتجاجی جلوس مال روڈ پر نکالنے کا اعلان کیا۔ اِس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے جن کی قیادت بیرسٹر ایم انور اَور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نعرہ لگاتے کہ ہمیں جنرل یحییٰ کا سر چاہیے اور حاضرین یہی نعرہ پوری قوت سے دیر تک دہراتے رہتے۔ پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمٰن نے جی ایچ کیو راولپنڈی کو یہی پیغام دیا کہ اہلِ لاہور جنرل یحییٰ کا سر مانگ رہے ہیں، اِس لیے اُنھیں فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اُنھیں آخرکار اپنی آرزوؤں کی چتا میں خاکستر ہو کر مستعفی ہونا اور اِقتدار مسٹر بھٹو کو منتقل کرنا پڑا۔

بھٹو صاحب کی حکومت قائم ہوئی، تو ہمارے لیے سخت آزمائشوں کا دور شروع ہو گیا، کیونکہ مَیں نے ’سقوطِ مشرقی پاکستان سے پردہ اُٹھتا ہے‘ میں اُن کے تاریخ شکن کردار کا تفصیل سے جائزہ لیا تھا۔ پھر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی زد میں مجیب الرحمٰن شامی بھی آ گئے جو ہفت روزہ زِندگی کے ایڈیٹر تھے۔ ہم نے فوجی عدالت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس عذاب کے پہلو بہ پہلو محکمۂ انکم ٹیکس نے ہماری آمدنی کے ذرائع بند کرنا شروع کر دیے، تو مَیں نے ایک دن گھبرا کر بڑے بھائی صاحب سے پوچھا اب کیا ہو گا۔ اُنھوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ نیلی چھت والا ہمیں وسائل بھی فراہم کرے گا اور وہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔ کچھ ہی روز بعد معجزانہ طور پر آسانیاں پیدا ہوتی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اُن کا مکمل بھروسہ اُن کی لازوال قوت تھا۔

ہم اکتوبر 1975میں ’وقتِ زوال‘ لکھنے پر ڈی پی آر کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ اسپیشل ٹریبونل نے دو سال کی سزا سنا دی۔ کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ میجر بخاری تھے۔ وہ ہم سے کبھی کبھی سیاسی معاملات پر بھی گفتگو کر لیتے تھے۔ وہ جنوری 1977کے آخر میں ہمارے سیل میں آئے، تب مسٹر بھٹو مارچ میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر چکے تھے۔ بخاری صاحب نے بتایا کہ آج مَیں شہر گیا اور پیپلزپارٹی کا جوش و خروش دیکھا۔ وہ انتخابات میں سویپ کر جائے گی اور آپ دونوں بھائیوں کو مقدمات میں پھنسائے رکھے گی، آپ کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں۔ وہ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے ہمارے پاس بیٹھے رہے۔ آخرکار اعجاز صاحب نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا کہ ہم نے مزاحمت کا یہ راستہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ دراصل مسٹر بھٹو نے اپنی قوم کو بہت ہلکا سمجھ لیا ہے اور اِس کی عزتِ نفس پر گہرے زخم لگائے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے فرعون کا جرم یہ بتایا ہے کہ اُس نے بنی اسرائیل کو ہلکا جان کر اُس پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے جس پر اُسے عبرت ناک سزا دی گئی اور اَب بھٹو صاحب کو بھی عبرت ناک سزا ملنے والی ہے اور وَہ چند ماہ بعد اِسی سیل میں بند ہوں گے جہاں اِس وقت ہم ہیں۔ واقعات بالکل اِسی طرح رونما ہوئے اور عبرت کا نشان بن گئے۔

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کو اکتوبر کے آخری عشرے میں کھانسی کا دورہ پڑا۔ جب اُن کی حالت زیادہ خراب ہو گئی، تو اُن کے بیٹے ہارون اعجاز اَور طیب اعجاز اُنہیں بحریہ اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے داخل کرنے سے انکار کر دیا ۔ رات کے بارہ بجے ڈیفنس کے نیشنل اسپتال گئے، وہاں بھی یہی جواب ملا۔ شامی صاحب کی کوششوں سے ڈاکٹرز اسپتال میں داخلہ ملا۔ وہاں ایک ہفتہ زیرِعلاج رہے۔ دو بیگمات سے اُن کے دس بیٹے اور دَو بیٹیاں کمرے میں قرآنِ حکیم کی تلاوت کرتے رہے۔ ڈاکٹر محسن اعجاز آئرلینڈ اور خالد اعجاز کراچی سے آ گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کی تھی۔ وہ اپنے اور پرایوں کی خدمت کرتے ہوئے اِس دنیا سے ایک نہایت مطمئن اور قابلِ رشک زندگی بسر کر کے رخصت ہو گئے اور آخرت سنوارنے کے نقوش چھوڑ گئے۔