فرانس کا اینٹی مسلم بل

November 28, 2020

روز آشنائی … تنویرزمانخان،لندن
یورپ میں یوں تو 9/11کے بعد مسلم آبادیاں گورے نسل پرستوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ لیکن فرانس اور فرانسیسیوں پر دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے باعث فرانس میں نئی قانون سازی کی جارہی ہے جس میں مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان قوانین کا ذکر کرنے سے پہلے ان چند واقعات پر نظر دوڑا لیں جو فرانس میں حالیہ دو تین مہینوں میں رونما ہوئے۔ اکتوبر کے وسط میں ایک چیچن نے ایک اسکول ٹیچر کو توہینِ رسالت کا مجرم سمجھ کر قتل کردیا۔ کہا جارہا ہے کہ ٹیچر پر حملہ آور ہونے والا کسی براہ راست معلومات کے نتیجے میں حملہ آور ہونے نہیں آیا تھا بلکہ وہ ساٹھ میل دور سے آیا اور اس کی معلومات بالکل ناقص تھیں اور مبینہ طور پر ایک گمراہ گن کلپ پر مبنی تھیں۔ پھر ایک چرچ میں چاقوؤں سے حملہ کیا گیا اس طرح سعودی عرب میں فرانسیسی سفارت خانے کے باہر چاقوؤں سے حملہ کیا گیا۔ چارلی ایبڈو کے دفتر کے سامنے چند افراد کو زخمی کیا گیا۔ یہ تمام واقعات مسلم انتہا پسندوں کے ہاتھوں سرزد ہوئے۔ حکام کا خیال ہے کہ یہ تمام واقعات کسی منظم نیٹ ورک کے ذریعے سرزد نہیں ہوئے بلکہ ڈھیلے ڈھالے محرکات اس کا سبب بنے۔ یعنی خود بخود انفرادی طور پر حملہ آوروں نے ایسا کرنے کا ذہن بنایا۔ یوں تو کہا جارہا ہےکہ یورپ میں دہشت گردی کے واقعات میں 2012کے بعد اب تک 70فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور یہ گراف مسلسل نیچے کی طرف جارہا ہے جس سے لگتا ہےکہ فرانسیسی حکومت آزادی اظہار کے نام پر ایسے مشتعل کرنے والے مواد کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ جس سے آزادی اظہار تو اپنی جگہ البتہ انتہا پسندی کو ضرور فروغ ملتا ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں 2600 فرانسیسی مسلم انتہا پسندوں کے حملوں کا شکار ہوئے جن میںچیچین، شامی، الجیرین، پاکستانی اور مراکشی سر فہرست ہیں۔ حالیہ مجوزہ بل جسے 9 دسمبر کو فرانس کی کابینہ میں بحث کیلئے پیش کیا جائے گا۔اسے فرانس کی وزارت داخلہ اور وزارت قانون و انصاف نے مل کر تیار کیا ہے جس کے تحت چند ایسے اقدامات تجویز کئے جارہے ہیں،جو ہٹلر کی یہودیوں سے سلوک کی یاد دلاتی ہیں۔ 1942میںفرانسیسی یہودیوں کو کہا گیا تھا کہ جو یہودی نازی مقبوضہ پیرس میں رہتے ہیں وہ اپنے کوٹ پر ایسے مخصوص بیج لگاکر رکھا کریں جن سے پتہ چلتا رہے کہ ان یہودیوں کو ٹارچر سیل اور پھانسی گھاٹ تک لے جایا جاسکتا ہے یہ نسل کشی کا فسطائی منصوبہ تھا۔ اب اسی طرح کا ملتا جلتا منصوبہ فرانس کے صدرایمانوئیل میکرون نے مسلمانوں کیلئے تجویز کیا ہے۔ اسے Islamist Separatismکا نام دیا گیا ہے۔ اس بل کے چند مندرجات یوں ہیں۔1۔گھروں میں مذہبی تعلیم پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ اس میں آن لائن درس و تدریس غیر قانونی ہوجائے گی۔ 2۔ ان لوگوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی جو سرکاری اہلکاروں کو مذہب کی بنیاد پر ڈرائیں دھمکائیں گے۔ ( اس کا مطلب ہوگا کہ وہ کسی سرکاری اہلکار کو یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ کام اسلام میں حرام ہے یا حلال طریقہ یہ ہے۔ اگر ایسا وہ اہلکار نہیں کرے گا تو وہ جہنم میں جائے گا یہ عمل ڈرانے دھمکانے کے زمرے میں آئے گا۔ 3۔تمام بچوں کو الیکٹرانک قومی شناختی نمبر دیا جائے گا جس سے پتہ چلتا رہا کرے گا وہ اسکول میں موجود ہیں یا نہیں۔ قانون شکنی کرنے ولواں کو چھ ماہ تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔ 4۔ہمیں (فرانسیسیوں) کو اپنے بچوں کا ان مسلمانوں کے ہتھے چڑھنے سے بچانا ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فرانسیسی دیگر مذاہب یا لامذیب مسلمانوں کےساتھ مکس اپ ہونے سے احتراز کیا کریں گے۔ یہ ایک ایسا بل ہے جو مذہبی اور نسلی منافرت میں خوب اضافہ کرے گا۔ فرانس کے ان اقدامات پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے مظاہرے شروع کردیئے ہیں۔ فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ تجویز کیا جارہا ہے۔ یار دہے کہ میکرون کے حالیہ اقدامات کے علاوہ فرانس میں ریاستی سیکولر ازم ان کی قومی شناخت ہے اور طلبہ کے اندر آزادی اظہار کے خیال پر مکمل اظہار اسکولوں میں اور دیگر جگہوں پر ان کی فخر کی علامت ہے۔ مسلمان ایسی آزادی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے آج کی جدید دنیا کے ساتھ مل کے رہنا اور ہم آہنگی پیدا کرنا۔ مذاکرات کے ذریعے معتدل فضا پیدا کرنا بہت نا ممکن سا عمل لگتا ہے۔ اب اگر دونوں طرف ایک دسرے کیلئے نفرت ہی نفرت ابھرے گی تو پھر امن کی توقع مشکل ہے اور فرانس میں مسلمانوں کا رہنا انتہائی غیر محفوظ ہوجائے گا۔ فرانس میں زیادہ تر انہی ممالک کے مسلمان آکر آباد ہوتے ہیں جو کسی زمانے میں فرانس کی نو آبادی رہےہوں۔ الجیریا کے مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو کہ سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔الجیرینوں کااسلام خاصا قدامت پسند ہے۔ وہ ہربات اور معاملات میں مذہب کوبہت نمایاں رکھتے ہیںاور حلال وحرام کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔ برطانیہ میںموجودشمالی افریقہ کے مسلمانوں کی تنگ نظری کو برطانیہ میں بھی خاصامحسوس کیا گیاہے۔ اس لحاظ سے فرانسیسی موجودہ حکومت اور وہاں کے مسلمان دو مختلف قطبین پر بیٹھےہیں اور وہاں باہمی تصادم بھڑکنے کے امکانات ہیں۔اسی طرح جو پاکستانی فرانس میں موجود ہیں۔ ان کے اندربھی فرانسیسی سوسائٹی کے ساتھ مکس اپ ہونے کارحجان نہیں ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر اپنی شناخت بناتے ہیں۔ادھر فرانسیسیوں کا جان بوجھ کر مسلمانوں کو مشتعل کرنا دراصل مذہبی انتہا پسندی کو برقرار رکھنا بھی ہےتاکہ سرمایہ دارانہ سامراجی ذہنیت کمزور ممالک پرحملوں اور پابندیوںکی راہ ہموار کرتی رہے۔