’’ڈاکٹر قاضی جاوید‘‘ ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا

December 01, 2020

معروف تاریخ دان آرنلڈ ٹوئن بی نے یونان ، روم اور مصر کی پرانی تہذیبوں کے عہدِ زوال میں ایک مشترک رجحان یہ دریافت کیاتھا کہ انحطاط کے ان ادوار میںان خطوں کے لوگ باتوں کے رسیا ہوچکے تھے۔ عمل کی دنیا پر سکوت طاری تھا۔گھروں میں، دفتروں اور چائے خانوں میں ہر وقت صرف باتیں ہورہی ہوتی تھیں۔اپنے زمانے اور اپنے معاشرے تک بات کو کھینچ لائیں تو گپ شپ اور کج بحثی کے مقامات میں ٹی وی چینلوں کے شام کے پروگراموں اور سوشل میڈیا کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

یہ ساری لفاظی اور مناظروں کی مصروفیات ، عمل کی دنیا سے دور، ایک اور ہی دنیا کا پتا دیتی ہیں۔اس دنیا میں کھوئے رہیں تو آدمی بے خبر ہی رہتا ہے کہ قوم کو درپیش اصل مسائل کیا ہیں؟ان مسائل کے حل کی کوئی تدبیریں سوچی جارہی ہیں یا نہیں، ادارے کیا کام کررہے ہیں، کہیں کوئی تحقیق بھی ہورہی ہے یا نہیں۔ بے اعتنائی کی اس فضا میں ہماری صفوں میں کہیں پیچھے، سب کی نظروں سے اوجھل کوئی مخلص دانشور، کوئی ادیب اور کوئی محقق خاموشی سے اپنے کام میں مگن ہو اور ہوا کے رُخ کے برخلاف نئے افکار کی، تخلیق میں مصروف ہو ،تو اُس سے بھی معاشرے کی اکثریت بے خبر ہی رہتی ہے ۔اور اگر ایسے کسی سنجیدہ کام کرنے والے کی موجودگی ہی سے معاشرہ بے نیاز ہو تو اُس کے دنیا سے رختِ سفر باندھ لینے کی خبر کتنے لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتی ہے، سوکسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اورہمارے ملک کے ایک اہم دانشور،فلسفی اور استاد قاضی جاوید خاموشی ہی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔

کوئی زندہ اور فعال معاشرہ ہوتا تو یونیورسٹیوں میں ریفرنس ہورہے ہوتے ، اہلِ سیاست کی زبان پر ایک بڑے قومی نقصان کا ذکر ہوتا ، ٹیلی وژن اسکرینوں پر گفتگو ہوتی کہ ڈاکٹر صاحب کن افکار کے مؤید تھے۔کیسی فکر انگیز کتابیں انہوں نے لکھیں۔روشن خیالی اور عقلیت پسند سوچ کو ترویج دینے کے لیے کیا کچھ انہوں نے کیا۔

ڈاکٹر قاضی جاوید ۷ فروری ۱۹۴۶ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے کم و بیش پاکستان کے ساتھ ہی اپنی زندگی کا آغاز کیا ۔قومی زندگی کے سب ہی بحرانوں کو انہوں نے دیکھا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی ، مذہبی انتہا پسندی کا عروج، صنفی نابرابری کے وحشت اثر مظاہر، آمریت اور جمہوریت کی آویزش_ڈاکٹر قاضی جاوید نے ان تمام مسائل کو سطحی انداز میں دیکھنے کے بجائے ایک فلسفی کی طرح ان کو معاشرے کے تہذیبی بحرانوں کے طور پر دیکھا اور ان کا گہرا تجزیہ اپنی کتابوں میں پیش کیا۔دو چیزیں ساری زندگی ان کے ساتھ رہیں ۔

پودوں اور درختوں سے محبت اورفلسفے سے شغف۔ شاید وہ فلسفی نہ بنتے تو باغبانی ہی کو کل وقتی طور پر اختیار کرتے لیکن انہوں نے اپنے دونوں مشاغل کو آمیز کرتے ہوئے افکار کی باغبانی کاراستہ اختیار کیا۔وہ ذہنوں میں روشن خیالی کے بیج بوتے اور نوجوانوں کو سوچنے اور سمجھنے کے وہ راستے سجھاتے جو ان کے ذہنوں کو کھولنے ،طبیعتوں کو نکھارنے اور مزاج کو ردّو قبول کے عمل سے گزر کر راستی کی سمت تلاش کرنے کا ذریعہ بن سکتے تھے ۔

قاضی جاوید صاحب نے جامعہ پنجاب سے فلسفے میں ایم اے کرنے کے بعد اسی جامعہ میں تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔کوئی ایک عشرے تک وہ درس و تدریس میں مصروف رہے ۔بعد ازاں وہ لاہور میں اکیڈمی آف لیٹرز کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ زندگی کے آخری برس انہوں نے ادارۂ ثقافت اسلامیہ میں ڈائریکٹرکی حیثیت سے گزارے۔ ایک زمانے میں یہ ادارہ ملک کا بہت اہم علمی و تحقیقی ادارہ تھامگر آمریتوں کے طویل ادوار میں دیگر اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی مرجھاتا چلا گیا۔

ڈاکٹر صاحب سے قبل ڈاکٹر رشید جالندھری نے اس کی سابقہ علمی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی مگر جب وہ اس کام کے لیے چنے گئے تو خود بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ جیسے تیسے انہوں نے اس ادارے کو سنبھالا۔قاضی جاوید صاحب نے اس میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی مگر بیمار اداروں کا علاج کرکے ان کو دوبارہ فعال بنانا، نئے اداروں کی تشکیل کے مقابلے میںکہیں زیادہ مشکل کام ہے ۔ ڈاکٹر صاحب آخر وقت تک اسی تگ و دو میں رہے کہ کسی طرح ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ اپنی گم گشتہ رفعت سے ایک مرتبہ پھر ہم کنار ہوسکے۔

ڈاکٹر قاضی جاوید ایک روشن خیال دانشور تھے جنہوں نے تاریخ و تہذیب کے گذشتہ اوراق پر ایک عقلیت پسند ذہن کے ساتھ نظر ڈالی۔عصری مسائل اور رجحانات کے حوالے سے بھی اُن کا طرزِ فکر جذباتیت اور کسی بھی قسم کے تعصب سے پاک اور عقل سے رہنمائی حاصل کرنے کا مظہر تھا۔اُن کی کوئی پچیس کے قریب کتابوں میں علم کا ایک جہان سمویا ہوا ہے ۔ان کے موضوعات متفرق ہیںمگر ان میں سرفہرست فلسفہ اور بڑے فلسفیوں کے خیالات، برعظیم میں تہذیبی رجحانات، مسلم فکر کا ارتقا، تقسیم ہند کے پیچھے کارفرما معاشرتی و ثقافتی عوامل، صوفیائے کرام کی خدمات، قیام پاکستان کے بعد کے نظری اور نظریاتی مسائل اور عالمی سطح پر نمودار ہونے والے سامراجیت، جنگ اور امن، اور تہذیبوں کے تصادم کے مباحث شامل ہیں ۔

ان کے موضوعات کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جہاں ایک طرف ہندوستان میں راسخ العقیدہ مذہبی رہنمائوں کے افکاراور صوفیائے کرام کی وسعتِ قلب و نظر کو موضوع بنایا وہیں دوسری طرف مغربی فلسفے پر مفصل ابواب پر مشتمل کتابیں بھی لکھیں۔

وہ شاہ ولی اللہ پر جس دلجمعی سے کام کرسکتے تھے اُسی قدر دلچسپی اور فکری گہرائی کے ساتھ برٹرینڈرسل کا بھی احاطہ کرسکتے تھے۔ پھرڈاکٹر صاحب کا اختصاص یہ بھی تھا کہ انہوں نے فلسفہ جیسے بظاہرادق مضمون پر اتنی عام فہم اردو میں کتابیں لکھیں جن سے ہر خاص و عام استفادہ کرسکتا ہے۔’وجودیت‘ اور ’معاصر مغربی فلسفے کا تعارف‘ ان کی ایسی ہی کتابیں ہیں ۔موخر الذکر کتاب میں انہوں نے جارج ایڈورڈ مُور،وٹگنسٹائن، منطقی اثباتیت اور لسانی تحلیل جیسے مشکل موضوعات کی بھی بہت سادہ الفاظ میں تشریح کی ہے ۔

مغربی فلسفیوں میں ڈاکٹر صاحب شاید سب سے زیادہ برٹرینڈ رسل سے متاثر ہوئے ۔اس کا سبب ایک تو یہ تھا کہ دنیا کے دوسرے بڑے فلسفیوں کی طرح رسل بھی ہمیشہ تشکیک سے یقین کی طرف سفر کا عادی رہا۔وہ تمام عمر صداقت کی تلاش میںسرگرداں رہا۔یہی نہیں بلکہ جس حاصلِ فکر پر وہ مطمئن ہوجاتا تھا اس پر بھی وہ ازسرِ نو غور و فکر کے لیے آمادہ رہتا تھا۔رسل سے متاثر ہونے کا دوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ ماضی کی فلسفیانہ اساس تلاش کرنے کے رسل کے کام کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔رسل کو اس نہج پر سوچنے کا راستہ کیمبرج میں اس کے استاد وہائیٹ ہیڈنے سجھایا تھا۔دونوں نے بعد ازاں مل کر ایک بڑی کتاب ’پرنسیپیا میتھا میٹیکا‘ بھی لکھی تھی۔ڈاکٹر قاضی جاوید نے رسل پر ایک مکمل کتاب لکھنے کے علاوہ اُس کی خود نوشت اور کئی دوسری کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔

ڈاکٹر قاضی جاوید کا شاید سب سے اہم اور بنیادی کام برعظیم میں مسلم فکر کا تجزیہ اور اس کی تشریح تھا۔اس سلسلے میں اُن کی کتابیں’برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقا‘، ’افکار ِ شاہ ولی اللہ‘، ’سرسید سے اقبال تک‘ اور ’پنجاب کے صوفی دانشور‘ غیر معمولی اہمیت کی حامل فکر انگیز کتابیں ہیں۔ اس نوعیت کا کام ہمارے یہاں شیخ محمد اکرام اورڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحبان نے بھی کیا ہے مگر ڈاکٹر قاضی جاوید جس چیز کو مستقل اہمیت دیتے ہیں وہ فکر کے ارتقا کو سماجی و معاشرتی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنے کا رجحان ہے ۔

وہ صوفیائے کرام کے مختلف سلسلوں کو بھی اُن کے سماجی پس منظر میں دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔چنانچہ یہ حضرت سید علی ہجویری ہوں یا بابا فرید گنج شکر یا بہائو الدین زکریا یا پھر حضرت سلطان باہو، وہ سب کا موازنہ کرتے ہوئے زمان و مکان کی تبدیلی کو ایک بنیاد ی حوالہ بناتے اوراہل تصوف کے اشتراک و اختلاف پر روشنی ڈالتے ہیں ۔انہوں نے جہاں سندھ کے صوفیاء کا ذکر کیا ہے ، وہاں بھی ان کا طریقۂ کار یہی ہے۔

تاریخ، سیاسیات اور پاکستانیات کے طالبعلم کی حیثیت سے میں جب ڈاکٹر قاضی جاوید کے علمی کام کو دیکھتا ہوں تو ایک بنیادی نتیجہ میں یہ اخذ کرتا ہوں کہ ہم جو پاکستانیوں کے ایک قوم نہ بن پانے کے بارے میں اکثر اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہیں ، ہمیں اوپر سے ناٖفذکردہ مرکزیت پسندانہ بیانیوں کی پے درپے ناکامیوں کا بھی خوب تجربہ ہوچکا ہے،تو ہم کیوں نہیں اپنی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ اور اس کے فراہم کردہ تہذیبی سرمائے میں وہ روشن خیال اقدار تلاش کرتے جو ہمارے خطوں کی قدر مشترک بھی ہیں اور جن کی اپنے زمانے کے لحاظ سے تعمیر و توسیع سے ہم کثرت میں سے وحدت کے توانا امکان کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

ہماری زمین جس طرح معدنیات کی دولت سے مالامال ہے ، اسی طرح ہمارا تہذہبی سرمایہ بھی ہماری قومی تشکیل و تعمیر کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے ۔ڈاکٹرقاضی جاوید کے علمی حاصلات سے اس امر کی توثیق ہوتی ہے۔