ڈیجیٹل لائبریریوں کا تعلیم کے فروغ میں کردار

December 13, 2020

کسی بھی شعبے میں تحقیق، پہلے سے دستیاب معلومات تک رسائی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اعلیٰ درجے کا تحقیقی مواد مختلف جرنلز میں شائع ہوتا ہے اور یہ بین الاقوامی اشاعتی اداروں کی ڈیٹا بیس سےخریدا بھی جا سکتا ہے۔ کسی فرد یا ادارے کو اپنا تحقیقی کام جاری رکھنے کے لیے تازہ ترین رحجانات، تخلیقات اور تحقیق تک فوری رسائی کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنا کام بغیر کسی خلل کے جاری رکھ سکے اور اس کی یکسوئی متاثر نہ ہو۔

ڈیجیٹل لائبریری ایسی لائبریری ہوتی ہے، جس میں ڈیجیٹل فارمیٹ میں مواد محفوظ کیا جاتا ہے اور کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل کے ذریعہ اس تک رسائی ہوتی ہے۔ اس مواد کو مقامی طور پر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے اور کہیںسے بھی اس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے لیے مختص بجٹ ہمیشہ ناکافی ہوتا ہے۔

خاص طور پر جب ہم اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت اور بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ اس ضمن میں رکھی جانے والی رقم اور بھی کم ہےجب کہ لائبریری توترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ کچھ تعلیمی اداروں نے ڈیجیٹل لائبریریوں میں سرمایہ کاری کی ہے، تاہم یہ رجحان تمام طبقات میں ابھی اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرسکا۔

ڈیجیٹل لائبریری کے سلسلے میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہےکہ ہمیں اپنا تحقیقی مواد خود تیار کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی محققین اپنی تحقیق بین الاقوامی جرنلز میں شائع کروارہے ہیں، جن میں مقامی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ اس مواد تک ہماری رسائی محدود ہے کیونکہ مکمل رسائی کے لیے ان جرائد کو معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ ایک آن لائن ذخیرہ تیار کیا جائے، جہاں پاکستانی محققین اور مصنفین کے لیےمقامی اور بین الاقوامی تحقیقی مواد مکمل طور پر دستیاب ہو۔

اس سلسلے میں ایک میکینزم وضع کیا جاسکتا ہے جس میں پاکستانی محققین کی تحقیقات اور اشاعتی مواد کو نا صرف جمع کرکے محفوظ رکھا جاسکتا ہے بلکہ ایک آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے اسے پھیلایا بھی جاسکتا ہے۔ کسی قانون سازی یا معاہدے کے ذریعے بڑے اشاعتی اداروں کی معاونت سے ایسے پلیٹ فارم کا قیام ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان میں سرکاری یا نجی شعبے میں ہونے والی تحقیق تک رسائی اہم ضرورت ہے۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائرایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان میں تحقیق کے رحجان کو فروغ دیا جاسکے۔ ایچ ای سی کے نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پروگرام نے پاکستان میں تحقیقی ماحول کو فروغ دینے میں اہم کردار اداکیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے سرکاری اور نجی شعبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ محققین کے لیے مہنگے آن لائن جرائد اور تحقیقی ڈیٹا بیس تک رسائی آسان ہوئی ہے۔ ای بک سپورٹ پروگرام محققین کو مختلف مضامین کے اہم مواد اور حوالے کی کتابوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔

چھوٹی لائبریریاں بھی کتابوں کابڑا ذخیرہ جمع کرسکتی ہیں کیونکہ ایک ہارڈ ڈرائیو میں رنگین پی ڈی ایف کی ایک لاکھ 50ہزار کتابیں اور ان کا کیٹلاگ ڈیٹارکھا جا سکتا ہے۔ آن لائن کتابیں فراہم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، اس حوالے سے نیٹ فلیکس (Netflex)اور ایمازون (Amazon)کی مثال دی جاسکتی ہے۔ لائبریریوں کے مالکان دو لاکھ کے قریب الیکٹرانک کتابیں خرید کر انٹرنیٹ پر لاسکتے ہیں۔ بوسٹن پبلک لائبریری اور لائبریری آف کانگریس میں روزانہ سینکڑوں کتابیں کمپیوٹر پر لائی جارہی ہیں۔ اس وقت بھی 20لاکھ کے قریب ویب سائٹس ایسی ہیں، جو پڑھنے والوں کو مفت کتابیں حاصل کرنے اور پڑھنے کی اجازت دیتی ہیں۔

ہمارے پاس بھی موقع ہے کہ ہم ایک ایسی آن لائن لائبریری بنائیں، جس تک سب کی رسائی ہو۔ بوسٹن پبلک لائبریری یا Yaleکا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک کروڑ کتابیں چاہئیں۔ایک کروڑ کتابیں ہم چار سال میں 16کروڑ ڈالر میں حاصل کرسکتے ہیں۔اگر مل کر کام کیا جائے تو آن لائن لائبریری کے ذریعےعلم تک سب کی رسائی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

جنوری 2004ء میں پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل لائبریری کا آغاز ہوا۔ اس لائبریری کی مدد سے یونیورسٹیاں اور تحقیقاتی ادارے 5ہزار بین الاقوامی جرائد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔PERNقومی سطح کا ایک ایسا تعلیمی انٹرنیٹ ہے جو کہ تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں کو ناصرف باہم ملا رہا ہے بلکہ انٹرنیٹ کی مدد سے مشترکہ تحقیقی علم اور وسائل بانٹنے اور فاصلاتی تعلیم فراہم کرنے میں بھی مددگار ہے۔ PERNمیں شامل ڈیجیٹل لائبریری میں فراہم کردہ سہولیات میں 11سو رسائل اور میگزین کے علاوہ ڈیجیٹل ویڈیو کانفرنسنگ کی خدمات اور لیکچرز شامل ہیں۔

آج پاکستان کی تقریباً سبھی لائبریریوں میں ڈیٹا ڈیجیٹائز کیا جارہاہے تاکہ طلبا کو تعلیمی اور غیر تعلیمی نصاب بآسانی دستیاب ہو سکے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پروگرام کے تحت طالب علموں کی علمی جرائد کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک کتابوں تک رسائی ممکن بنا رہا ہے۔ اس لائبریری میں 75ہزار سے زائد کتابیں، جرائد اور مضامین موجود ہیں۔اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے سائبر لائبریری منصوبے کا مقصد قومی اور دیگر مقامی زبانوں میں انٹرنیٹ پر مواد کی فراہمی ہے۔ اس لائبریری میں مذہب، ادب، تاریخ اور سائنسی موضوعات پر کتب موجود ہیں۔