پسند کی شادی موت کا پروانہ بن گئی

January 10, 2021

سندھ میں یُوں تو غیرت کے نام پر قتل کی روایت صدیوں سے برقرار ہے، لیکن اس خوں آشامی کے باوجود لڑکیوں کے گھروں سے بھاگ کر پسند کی شادی کرنے کے واقعات میں کمی بھی نہیں ہورہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جوں جوں میڈیا کی ترقی ہورہی ہے، ایسے ہی پسند کی شادی کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں گو کہ پسند کی شادی کرنے والے جوڑے اپنے رشتے داروں کے غیض و غضب سے بچنے کے لیے عدالت سے تحفظ بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ لاکھ چُھپنے کے باوجود بھی لڑکی یا لڑکے کے رشتہ دار انہیں ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ان کے قتل سے اپنے انتقام کی پیاس بجھاتے ہیں۔

پسند کی شادی کیوں کی ’’ توں کارو توں کاری آھیں‘‘ :یہ وہ مشہور اور رائج جملہ ہے جو کہ پسند کی شادی کرنے والوں کے لیے بولا جاتا ہے، اس بارے میں پسند کی شادی کرنے والوں کے لیے زمین اپنی وسعت کے باوجود بھی سکڑ جاتی اور تنگئی داماں کا مظہر بن جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والوں میں نفسانی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں، جن کی بناء پر بعض اوقات نوجوان اپنی زندگی کے فیصلے خود کر لیتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے اس فعل کا انجام موت اور وہ بھی دردناک موت ہو سکتی ہے۔ وہ انجام سے بے پرواہ ہوکر پسند کی شادی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں اکثر پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کا یہ شکوہ سامنے آتا ہے کہ اس کے گھر والے اس کی مرضی کے بغیر ایسے لڑکے سے اس کا بیاہ کرنا چاہتے تھے، جو کہ اس کو کسی قیمت پر پسند نہیں اور اس بے جوڑ رشتے سے پیچھا چھڑا کر اس نے اپنا جیون ساتھی خود منتخب کیا۔ اپنے جیون ساتھی کا خود انتخاب کرکے جو کہ فیس بک او واٹس اپ کے ذریعہ اب آسان تر ہوگیا ہے، ماں باپ بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی عزت اور آبرو کو روند کر تاریک راتوں میں گھروں سے نکل جاتی ہیں ، ایسی لڑکیوں کے بارے میں سندھ میں ’’کاری‘‘ اور لڑکے کے بارے میں ’’کارو‘‘ کا لفظ عام ہے اور کارو کاری کے قتل کے بارے میں دور جاہلیت کی طرح آج بھی قبائلی سسٹم میں جرگہ کرکے ان کے قتل کا فیصلہ اور قاتلوں کے لیے لفظ “مڑس‘‘ : یعنی بہادر بولا جاتا ہےاور ایسے قاتلوں کو قانون کے شکنجے سے دور رکھنے یا چھڑانے کے لیے پُورے قبیلے پر ذمے داری عائد کردی جاتی ہے، جب کہ بعض قبیلوں میں تو یہ رواج بھی ہے کہ بھگا کر لے جانے والے کے گھر کی لڑکیوں کو تاوان کے طورپر ’’ونی‘‘ بنا کر بھاگنے والی لڑکیوں کے بھائی بیٹوں کے ساتھ نکاح کرکے حوالے کردیا جاتا ہے اور اپنی بہن یا بیٹی کے بھاگ جانے کی ذلت اور خواری کے باعث انتقام کی آگ میں جلنے والے ان کی بہن یا بیٹی کو بھگا لے جانے والے کی بہن یا بیٹی کے ساتھ کس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوں گے،اس کا تصور کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

ضلع شہید بے نظیر آباد کے شہر باندھی کی بلال کالونی میں گزشتہ دنوں یہ روح فرسا منظر چشم فلک نے دیکھا، جب انتقام کی آگ میں دو سال سے جلنے والے مسلح افراد نے گھر میں گھس کر پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو موت کی نیند سلادیا جبکہ ملزمان فرار ہوگئے ۔پولیس کے مطابق بلال کالونی باندھی میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر نوجوان خاتون ساجدہ جانوری اور سکندر شاہ کو گھر میں گھس کر نامعلوم مسلح افراد نے کلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیا ۔مقتولین نے دوسال قبل پسند کی شادی کی تھی اور پھل شہر ضلع نوشہرو فیروز کو چھوڑ کر باندھی ضلع شہید بے نظیر آباد میں رہائش اختیار کی تھی جبکہ پولیس کے مطابق پسند کی شادی کرنے پر لڑکی کے اہل خانہ ناراض تھے دوہرے قتل کی اطلاع پر پولیس نے نعشوں کو تعلقہ اسپتال باندھی منتقل کردیا جبکہ ملزمان کی تلاش کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں ۔

پولیس کے مطابق دوہرے قتل کا واقعہ ذاتی دشمنی یا پسند کی شادی کا شاخسانہ لگتا ھے تاہم واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی اسی طرح اس مضمون کے ضبط تحریر میں لانے تک نواب شاہ کے قریب سوئی گیس بس اسٹاپ گوٹھ میں باپ نے سترہ سالہ بیٹی کو سوتے میںچھری سے ذبح کردیا۔ غلام سرور نامی شخص کو شبہ تھا کہ اس کی بیٹی کی پڑوس کے لڑکے کے ساتھ دوستی ہے جس کی وجہ سے اس کی بدنامی ہورہی اور لوگوں کی انگلیاں اس پر اٹھ رہی تھیں لہذا اس نے اسے سوتے میںموت کی نیند سلادیا ۔

پسند کی شادی کے دردناک انجام سے دوچار ہونے والے جوڑوں کے بارے میں انچارج وومن پولیس اسٹیشن اینڈ انچارج چائلڈ پروٹیکشن میڈم مریم بھرٹ کا کہنا تھا کہ اکثر لڑکیاں جو کہ نوجوان لڑکوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر باپ کے گھر کی دہلیز پار کرتی ہیں۔ ان میں 80 یا نوے فیصد لڑکیاں شادی کی ناکامی کے بعد طلاق ملنے پر زندہ درگور ہوجاتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ پسند کی شادی کے دو چار ماہ کے بعد ہی جب محبت کا بھوت سر سے اتر جاتا ہے تو پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو لڑکے یا اس کے اہل خانہ کی جانب سے اس الزام کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ نہ جانے اس سے پہلے بھی کسی اور کے ساتھ بھی گل چھڑے اڑائے ہوں گے کون سی پاک دامن ہے اور اسی طرح کے طعنوں کے تیر اس پر برسانے کا سلسلہ شروع اور بعد ازاں طلاق اس کا مقدر ٹھہرتی ہے اور شیلٹر ہوم میں اس کو زندگی کے دن گزارنے پڑتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والی سیدھی سادی لڑکیوں کو شادی کے نام پر اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر دوسروں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

اس طرح ان معصوم بچیوں کو ہوس کے سوداگر آگے سے آگے بیچتے چلے جاتے ہیں۔ ادھر اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر پیپلز میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیات کے سابق انچارج پروفیسر ڈاکٹر کیپٹن جمیل حسین نے جنگ کو بتایا کہ معاشی ناہمواری ، وسائل کی قلت اور جہیز کی لعنت کے باعث بچیوں کی شادی میں تاخیر سے بھی معاشرے میں مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ لڑکے یا لڑکی کی شادی کی آئیڈیل عمر اٹھارہ سال ہے اور اس سے دن جوں جوں بڑھتے جاتے ہیں۔

لڑکے یا لڑکی میں نفسیاتی مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بالآخرخر لڑکے اور لڑکیوں کی بغاوت کی صورت میں ماں باپ کو اس کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ لڑکا یا لڑکی اپنے خاندان کی عزت کو پاؤں تلے روند کر اپنی دنیا آباد کرنے نکل جاتے ہیں اور پھر وہ فرسودہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔

ممتاز عالم دین مفتی عقیل احمد قریشی نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شادی لڑکے یا لڑکی کی شرعی ضرورت ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اس میں ایجاب و قبول کی شرط لازم ہے ان کا کہنا تھا کہ شادی سے قبل اگر والدین اپنے بچے اور بچیوں کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھ لیں تو اولاد کی بغاوت کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اچھی تربیت اولاد کے لئے والدین کا بہترین ترکہ ہے اور کوشش کی جائے شادی جیسے سنجیدہ موضوع پر اولاد کو اعتماد میں لے کرفیصلے کئے جائیں تاکہ اولاد کی بغاوت کے خطرے سے بچا جاسکے ۔ دوسری جانب موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ پھیلائی جانے والی فحاشی کے طوفان میں نوجوانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کے ماحول میں ضروری ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر ی کی شادی کو خلاف قانون قرار دئیے جانے کے فیصلے پر نظر ثانی اور شادی کی کم از کم عمر کو سولہ سال کردی جائے تو ممکن ہے کہ معاشرے میں پسند کی شادی کے رجحان میں کمی اور قتل و غارت گری کے سلسلے کی روک تھام ہو سکے جو کہ اب معاشرے کے لئے سوہان روح بن چکا ہے۔