اراضی ہند، عُشری ہیں یا نہیں؟ (گزشتہ سے پیوستہ)

January 15, 2021

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

(الجواب) ضبط کرنے کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک قبضۂ مالکانہ، اگر یہ ہوا ہے تو وہ اراضی عشری نہیں رہیں، دوسرا قبضۂ مالکانہ وحاکمانہ و متنظمانہ۔ اور احقر کے نزدیک قرائنِ قویہ سے اسی کو ترجیح ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو اراضی ٔ عشریہ بحالہا عشری رہیں، البتہ اگر پہلے سے وہ ارض عشری نہ تھی یا سرکار نے کوئی دوسری زمین اس کی زمین کے عوض میں دے دی یا کسی صلے میں اسے کوئی زمین دی، سو چوں کہ وہ دینے کے قبل استیلاء سے سرکار کی ملک ہوگئی تھی، لہٰذا وہ عشری نہ رہی۔(امداد الفتاویٰ ص ۵۲،ص۵۳ ج۲)، (جواہر الفقہ ص ۲۶۰،ص۲۶۱ج۲)

مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:ہندوستانی اراضی کے عشری یا خراجی ہونے کی تحقیق:تقسیمِ ملک کے بعد جو خطہ ہندوستان کے نام سے مخصوص ہو کر ہندو اکثریت کے اقتدار میں آیا، اس کی وہ زمینیں جو قدیم سے مسلمانوں کے مالکانہ قبضہ میں چلی آرہی ہیں اور کسی دور میں اس پر کسی کافر کی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے وہ تو جس طرح عہدِ برطانیہ میں عشری تھیں، آج بھی عشری رہیں گی۔

البتہ جو اراضی مسلمان ہندوستان میں چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے، ان کی متروکہ اراضی کو حکومتِ ہند نے عموماً تارکانِ وطن ہندوؤں اور سکھوں وغیرہ غیر مسلموں میں تقسیم کیا ہے، اگر ان سے خرید کر یا کسی دوسرے ذریعے سے وہ کسی مسلمان کی ملکیت میں آجائیں تو وہ زمینیں اگر پہلے عشری بھی ہوں تو اب غیر مسلم کے استیلاء کی وجہ سے خراجی ہوجائیں گی۔ اگر اسی طرح کسی جگہ مسلمانوں کی متروکہ زمین حکومتِ ہند نے کسی مسلمان ہی کو ابتدا میںدے دی ہو تو وہ بھی بوجہ استیلاء کے عشری نہ رہے گی، بلکہ خراجی ہوجائے گی۔

ہندوستان کی باقی سب زمینوں کے اَحکام وہی رہیں گے جو عہدِ برطانیہ میں یا اس کے پہلے اسلامی عہد میں تھے، جس کی تفصیل اوپر معلوم ہوچکی ہے کہ جو زمینیں نسلاً بعد نسل مسلمانوں کی ملک میں چلی آتی ہیں اور کسی دور میں ان پر کسی کافر کی ملکیت ثابت نہیں ،وہ بطورِ استصحابِ حال کے ابتدا ہی سے مسلمانوں کی ملک قرار دے کر عشری سمجھی جائیں گی اور جن پر کسی وقت غیر مسلموں کا مالکانہ قبضہ تھا، پھر ان سے خریدکر یا کسی دوسرے جائز ذریعے سے مسلمانوں کی ملکیت میں آگئیں تو وہ خراجی قرار پائیں گی۔ (جو اہر الفقہ ۲/۲۶۲)

اسلامی فقہ اکیڈمی کی چھٹے فقہی سیمینار کی تجویز بسلسلۂ عشری وخراجی اراضی بھی ملاحظہ کر لی جائے:

’’ عشر کے ضروری مسائل‘‘

مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ عشر اسی کے ذمہ ہے جس کے پاس کھیت تیار قابلِ حصاد ہو، اسی طرح جس کا باغ نمٹ گیا ہو اور اگر کھیت پر آفت آگئی یا باغ کا پھل پھول برباد ہوگیا تو عشر واجب نہیں۔

دوسرے یہ کہ بعض لوگ تو اپنا کھیت خود کاشت کرتے ہیں اور بعض دوسروں کو کاشت کے لیے دیتے ہیں، جو لوگ خود اپنے کھیت کو کاشت کرتے ہیں، ان پر عشر کا واجب ہونا تو ظاہر ہے جب کہ زمین عشری ہو اور جو لوگ دوسروں کو دیتے ہیں ان کی چند صورتیں ہیں:

ایک یہ کہ زمین بٹائی پر دیں اس صورت میں اپنے اپنے حصے کاعشر دو نوں کے ذمہ ہے کا شت کار کے بھی اور زمین دار کے بھی، دوسری صورت یہ ہے کہ زمین ٹھیکے پر دی جائے، مثلاً فی بیگہ من بھر غلہ لیں گے یا فی بیگہ دور روپیے، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ عشر کس کے ذمہ ہوگا؟ مگر ہم لوگ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ عشر کا شت کار کے ذمہ ہے، کیوں کہ کاشت کا وہی مالک ہے ۔ ایک بات یہ معلوم کرنا چاہیے کہ عشر کی مقدار کیا ہے؟ سو اس کا مدار پانی پر ہے، توجس زمین کو کنویں سے پانی دیا جائے یا جس میں سرکاری نہر سے پانی دیا جائے، اس میں پیداوار کا بیسواں حصہ ہے (مثلاً دس کلو ہو تو آدھا کلو ادا کرے) اور جو بارانی ہو (بارش کاپانی ہو ) اس میں دسواں حصہ (مثلاً دس کلو ہو تو ایک کلو ادا کرے ) نیز باغات میں بھی عشر ہے جب کہ زمین عشری ہو اور اس کی مقدار کا مدار بھی پانی ہے اور عشر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے کہ اس میں بھی تملیکِ فقیر واجب ہے ۔ (التبلیغ وعظ العشر ص ۱۰،ص۲۰)

(…جاری ہے…)