ڈیٹا مائننگ اور طلبا کا انٹرنیٹ استعمال

January 17, 2021

اکثر اوقات آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جب بھی آپ انٹرنیٹ پر کسی چیز (مصنوعات، خدمات، ریستوران، پراپرٹی وغیرہ) کے بارے میں معلومات تلاش کرتے ہیں تو اسی موضوع سے متعلق مواد مختلف اشتہارات کی صورت میں آپ کی سوشل میڈیا پروفائل کی نیوزفیڈ میں نظر آنے لگتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ مختلف ویب سائٹس پر جاتے ہیں تو وہاں لگے بینر اشتہارات دیکھ کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر آپ کی حالیہ خریداریوں یا سرچز کی عکاسی کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کسی بھی صارف کے لیے یہ ’ٹارگٹڈ اشتہارات‘ ڈیٹا مائننگ کی صرف ایک مثال ہیں۔

ڈیٹا مائننگ

ڈیٹا مائننگ ایک ایسا عمل ہے جس میں خام ڈیٹا کو مفید معلومات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ سوفٹ ویئر کی مدد سے ڈیٹا میں پیٹرنز دیکھے جاتے ہیں، جن کی بدولت مختلف کاروباری طبقے اپنے صارفین کے رویے کو جان کر مارکیٹنگ کے لیے زیادہ مؤثر حکمت عملی کی تیاری، مصنوعات کی تشہیر، فروخت میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اعداد و شمار کو جمع کرنا اور استعمال کرنا متعدد کاروبار (بالخصوص ٹیک کمپنیوں) کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، مگر یہ صارفین کی رازداری پر حملہ بھی ہوسکتا ہے، خاص طور پر اگر یہ ڈیٹا طلبا کے حوالے سے اکٹھا کیا جائے۔

بگ ڈیٹا مینجمنٹ آج کاروبار کا ایک اہم حصہ ہے۔ انٹرنیٹ پر بڑھتی معلومات اور ڈیٹا کو منظم کرنے اور کروڑوں کے ہجوم میں اپنے کام کی معلومات کے حصول کی خواہش نے کمپنیوںکو بگ ڈیٹا مینجمنٹ کی طرف مائل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنیاں ’ڈیٹا سائنسدانوں‘ کو ملازمتوں پر رکھ رہی ہیں تاکہ وہ کاروباری مارکیٹ میں اپنے مدمقابل کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھ سکیں۔ ڈیٹا سائنسدان تین ڈیٹا ورائٹیز پر کام کرتے ہیں۔

سب سے پہلے اسٹرکچرڈ ڈیٹا کا جائزہ لے کرنتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ منظم مواد پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی جملہ معلومات سےملتا ہے۔ دوسری قسم اَن اسٹرکچرڈ ڈیٹا یعنی غیر منظم مواد کی ہے۔ یہ مواد ریکارڈ کی صورت انسانی سرگرمیوں سے ملتا ہے۔ تیسری قسم سیمی اسٹرکچر ڈیٹا یعنی نیم منظم موادپر مشتمل ہے ۔ یہ منظم مواد کو الگ الگ فائلز میں بانٹنے سے حاصل ہوتا ہے۔

ڈیٹا کی اس بھرمار میں پروسیس کو خودکار کرنے کا ایک طریقہ ڈیٹا مائننگ ہے۔ ڈیٹا سائنسدان، ڈیٹا میں پیٹرنز کا پتہ لگانے کے لیے الگورتھم استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار جب الگورتھم کے ذریعے ڈیٹا کا خلاصہ کیا جاتا ہے تو ڈیٹا سائنسدان اپنے مشاہدے کے تحت مختلف رجحانات کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ ڈیٹا سائنس مصنوعات پر لاگت اور صارفین کی پسند و ناپسند یعنی مارکیٹ ٹرینڈز کا تجزیہ کرتے ہوئے سودمند مصنوعات کی تیاری میں سہولت پیدا کرتی ہے۔

طلبا کی پرائیویسی

ڈیٹا مائننگ کے باعث دنیا بھر میں طلبا کا ڈیٹا بھی کمپنیوں کے لیے دلچسپی کا حامل ہے۔ طالب علم جو بھی آن لائن سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، وہ اپنا نشان چھوڑ جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ ڈیٹا ریکارڈ اور محفوظ ہورہا ہو۔ طلبا جب ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، فلمیں یا ویڈیو دیکھتے ہیں، آن لائن کتابیں پڑھتے ہیں ، کوئز میںحصہ لیتے ہیں، اسائنمنٹ مکمل کرتے ہیں، اور یہاں تک کہ جسمانی تعلیم کی کلاس لیتے ہیں تو اس سب کا ڈیٹا ریکارڈ ہوتا ہے۔

کمپنیاںمطلوبہ معلومات اکٹھی کرسکتی ہیں جیسے کہ وہ اپنا اسائنمنٹ کتنے اچھے طریقے سے کرتے ہیں، دن کے کس حصے میں وہ ان پر کام کرتے ہیں، پڑھتے وقت ان کی لوکیشن کیا ہے ، ان کی ویب براؤزنگ کی عادات کیا ہیں اور اسکول میں کتنی اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ تاہم، طلبا اور والدین کے لیے یہ جاننا ممکن نہیںکہ کون سی کمپنیاں طلبا کا ڈیٹا اکٹھا کررہی ہیں۔ نیز، انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ معلومات کس طرح استعمال کی جارہی ہیں۔

ان معلومات کو جمع کرنے والی کمپنیز میں سرفہرست گوگل ہے، جس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے اور ماضی میں اس کے خلاف امریکا کی وفاقی عدالت میں شکایت بھی درج کرائی جاچکی ہے۔ الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن (ای ایف ایف) کے مطابق گوگل، بچوں کے بارے میں ضرورت سے کہیں زیادہ معلومات اکٹھی کر رہا ہے اور اکثر ان معلومات کو غیر معینہ مدت تک محفوظ کر رہا ہے۔ ان میں نام اور تاریخ پیدائش جیسی معلومات کے علاوہ براؤزنگ ہسٹری، سرچ کیے جانے والے الفاظ، لوکیشن کا ڈیٹا ، کانٹیکٹس کی فہرست، اور طرزِ عمل کی معلومات شامل ہوسکتی ہیں۔

تعلیمی اداروں کی جانب سے تعلیم کی فراہمی اور طلبا سے رابطے میں رہنے کی غرض سے تھرڈ پارٹی سافٹ ویئر استعمال کیے جاتے ہیں۔یہ سافٹ ویئر طلبا کا ڈیٹا اکٹھا اور محفوظ کرتے ہیں اور ان کو بنانے والی کمپنیز ممکنہ طور پر طلبا کا ڈیٹا فروخت کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلبا کا آن لائن سیکھنے اور امتحانات دینے کے عمل سے حاصل ہونے والا ڈیٹا کالج میں بھرتی، کھیلوں میں بھرتی، یہاں تک کہ تعلیمی مصنوعات کے مشتہرین کے پاس جاسکتا ہے۔

طلبا کی جانب سے انٹرنیٹ استعمال کرنے سے حاصل ہونی والی معلومات کی بناء پر ان کے بارے میں ہر چیز کا پتہ لگایا جاسکتا ہے جیسے کہ وہ کیا جانتے ہیں، کس طرح سوچتے ہیں اور کس طرح سیکھتے ہیں۔ مسئلہ اس وقت درپیش آتا ہے جب ان کی معلومات کو تعلیم میں بہتری کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اشتہارات کی غرض سے کمپنیوں یا ڈیٹا بروکرز کو ڈیٹا کی فروخت کے حوالے سے فی الحال کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی شعبے سے وابستہ ماہرین بھی طلبا کی پرائیویسی کو محفوظ بنانے میں خامیاں موجود ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ طلبا کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ اور سوفٹ ویئر کے استعمال میں غیرضروری معلومات فراہم کرنے سے اجتناب کریں۔