ہولاڑ کی پہاڑی چوٹی پر واقع ’قلعہ آئن‘

February 19, 2021

آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کی پہاڑی چوٹیاں، دریا، چشمے، جھیلیں اور ہریالی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ ان ہی خوبصورت مناظر اور قدرت کے تحائف میں سے ایک دریائے جہلم بھی ہے۔ آج ہم اس دریا کے مغربی کنارے پر واقع قلعہ آئن کا ذکر کر رہے ہیں، جو کوٹلی کی تحصیل سہسنہ کے شہر ہولاڑ میں قائم ہے۔

ہولاڑ سے قلعہ آئن تک جانے کے لیے دو سے تین گھنٹے کی ٹریکنگ کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ آدھے فاصلے یعنی’تل‘ گاؤں تک جیپ یا موٹر سائیکل پر بھی جا سکتے ہیں۔ اس گاؤں سے قلعہ آئن دکھائی دیتا ہے، تاہم یہاں سے آگے کا سفر پیدل ہی طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ گاؤں سے آگے سڑک کی حالت خراب ہے۔ سالوں پہلے تعمیر کی گئی اس سڑک کی وقت کے ساتھ ساتھ مرمت نہ ہونے کے باعث اب یہاں نوکیلے پتھر باقی بچے ہیں۔ یہ سڑک قلعے کے قریب واقع ’آئن‘ گاؤں تک جاتی ہے۔ قلعہ آئن اور اس سڑک کے درمیان پیدل نصف گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ قلعے جانے کے لیے ’پونا‘ کا پُل بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ راستہ مشکل ہے اوراس کا فاصلہ بھی زیادہ ہے۔

قلعے عموماً سرحدوں کی حفاظت کے لیے تعمیر کیے جاتے تھے لیکن تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ دریاؤں اور تالابوں کے گرد یا دہانے پر ان کی تعمیر عمل میں لائی جائے۔ اس طرح نہ صرف قلعوںکو ایک قدرتی دفاعی حصار مہیا ہوتا تھا بلکہ دریا یا تالاب اشیائے خوردونوش کی ترسیل اور پانی کی فراہمی کا ذریعہ بھی بنتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دیکھا، سنا یا پڑھا ہوگا کہ اکثر قلعے دریاؤں اور تالابوں کے قریب ہی تعمیر کیے گئے۔

قلعہ آئن بھی جنگل کی سمت انتہائی خطرناک پہاڑی چوٹی پر تعمیر کیا گیا جس کے دائیں، بائیں اور سامنے دریا تھا جبکہ اس کے پیچھے کی جانب گاؤں ہے۔ دریائے جہلم کی طرف سے قلعہ دشمن کے حملوں سے ہمیشہ محفوظ رہا کیونکہ کوئی بھی پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے دریا عبور نہیں کرسکا۔ آزاد کشمیر میںموجود دیگر قلعوںکی نسبت یہ قلعہ حجم میںقدرے چھوٹا ہے، اسے واچ ٹاور یا سرحدی چوکی بھی کہا جاسکتا ہے۔

قلعہ آئن کی تعمیر کے بارے میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کی بنیاد کس نے، کب اور کن مقاصد کے تحت رکھی تھی۔ ویسے تو یہ معلومات اب تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں۔ قلعے کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے 1561ء میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ لیکن اگر آزاد کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں موجود بیشتر قلعے گکھڑوں، ڈوگروں، منگ اور منگراں حکمرانوں نے بنوائے تھے۔ اس کے علاوہ سدھن قبیلے کی تاریخ بھی سرکشی سے بھری پڑی ہے۔ انھوںنے ڈوگرہ راج پر قابو پانے کے لیے دریائے جہلم پربہت سے قلعے تعمیر کیے۔

ڈوگروںسے مقابلے کے لیے جنگجوؤں کو رائفلیں اور دیگر ہتھیار دیے، انھیں ہولاڑ اور آزاد پتن کے درمیان کسی محفوظ مقام سے موقع محل دیکھ کر کشتیوں، تیراکوں یا لکڑیوں کے گٹھے بنا کر دریا پار کرایا جاتا تھا، جس کے لیے اکثر ’پانہ‘کا علاقہ استعمال کیا جاتا تھا۔ آزاد پتن اور پلندری سے ڈوگرہ فوج کے بھاگنے کے بعد صوبیدار بارُو خان (شہید) کی قیادت میں قلعہ آئن فتح ہوا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے چند ماہ بعد ہی یہ فتح حاصل ہوئی۔ تاہم، اس کے استعمال کی ضرورت محسوس نہ ہونے پر تقریباً سات دہائیوں سے یہ ویران پڑا ہے۔

قلعہ چھوٹا ہونے کے باوجود حسن تعمیر و ترتیب رکھتا تھا مگر اب اس کی حالت کافی شکستہ ہوچکی ہے۔ بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے قلعے کی فصیل میں دراڑیں پڑگئی ہیں۔ قلعہ آئن تین اطراف سے تند و تیز ہواؤں کی زد میں ہے، جس کا اندازہ اس کی فصیل کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ قلعے کا مرکزی حصہ دریائے جہلم کے کنارے تک پختہ تھا، تاہم دریاکی طغیانی کے باعث یہ حصہ دریا برد ہوگیا مگر اس کے آثار ابھی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ قلعے میں دو دروازے بنائے گئے تھے۔

اس کا مرکزی دروازہ دریائے جہلم کی نذر ہو چکا ہے جبکہ بائیں طرف کا دروازہ بھی موجود نہیں۔ یہ حصہ جزوی طور پر منہدم ہو چکا ہے اور بچ جانے والا حصہ بو سیدہ ہے۔ قلعے کے اندر پانی کا ایک چھوٹا تالاب بھی بنایا گیا تھا، جسے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ قلعے کے اندر کی تعمیرات ویسے تو منہدم ہو چکی ہیں مگر اس میں موجود کمرے ابھی بھی کچھ حد تک بہتر حالت میں ہیں۔ مٹی بھرجانے کی وجہ سے زیرِ زمین تہہ خانوں کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ قلعہ میںبس پتھر ہی پتھر نظر آتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں بچ جانے والے قلعوں کی اگر دیکھ بھال کی جائے اور وہاں تک لوگوں کی رسائی آسان ہوجائے تو سیاحت کو فروغ ملے گا اور عوام کو تاریخ جاننے کا موقع ملے گا۔ بصورتِ دیگر یہ قلعے بھی وقت کی بے رحمی کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔