اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھنے لگیں

February 21, 2021

سندھ میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال ، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، اسٹریٹ کرائم اور اغوا برائے تاوان، جیسی وارداتوں میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے، گزشتہ دو سال کے دوران سندھ اکثریتی اضلاع میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا، خاص طور پر اغوا برائے تاوان کی سنگین وارداتیں جن کا بڑی حد تک قلع قمع کردیا گیا تھا ، ایک بار پھر سندھ میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، سندھ پولیس رپورٹ کے مطابق 2019 میں اغوا برائے تاوان کی 72 وارداتیں ہوئیں تھیں، جو بڑھ کر 2021 میں 207 تک پہنچ گئیں ہیں اس طرح اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 200 فی صد تک حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔

جرائم کے حوالے سے آئی جی سندھ کا اپنا علاقہ سکھر ریجن سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں دیگر ریجن یا اضلاع کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں، سندھ میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں حکومت اور سندھ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ صوبے میں امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت اور پولیس کی مشترکہ ذمے داری ہے، پولیس حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اور اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہو تو صوبے کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعلی سندھ آئی جی سمیت بالا افسران سے باز پرس کرسکتے ہیں، لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوگا۔

جب سندھ میں پولیس افسران کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر نہیں، بلکہ مکمل طور پر میرٹ پر ہوں گی، پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ بھی دینا پڑے گا کہ اس کی حکومت نے چند سال قبل سندھ میں جرائم خاص طور پر اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں کا بڑی حد تک خاتمہ کرکے شاہ راہوں کو محفوظ بنایا۔ مثالی امن قائم کرنے کا سہرا اگر پیپلزپارٹی کے سر جاتا ہے، تو موجودہ جرائم اور اغواء برائے تاوان جیسی سنگین وارداتیں میں اضافے کی ذمے داری بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہی حصے میں آئے گی، اس لیے حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی، کیوں کہ سندھ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈکیتی، لوٹ مار، اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں خاص طور پر اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ایک دو سال کے دوران غیر یقینی اضافہ ہوا ہے ۔

اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں ایک سال کے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سندھ میں سکھر ریجن اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری بنتا جارہا ہے اور آئی جی سندھ مشتاق مہر کا اپنا ریجن سکھر اور جس ضلع سے ان کا تعلق ہے، شکارپور وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ سندھ پولیس کی جانب سے ڈاکو و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں تو کی جارہی ہیں، مگر مختلف عوامل کے سبب سال گزشتہ میں پولیس کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں بہتر ہونے کے بہ جائے تنزلی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ پولیس کی ڈاکو و جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث اغواء برائے تاوان سمیت ڈکیتی، چوری ودیگر اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل ہائی وے اور لنِک روڈ پر بھی لوٹ مار اور رہزنی کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں، جب کہ شہری علاقوں میں دن دھاڑے گھروں اور دکانوں میں ڈکیتی کی وارداتیں انجام دی جارہی ہیں، گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں چَوری اور چھینی جارہی ہیں، جب کہ مختلف علاقوں میں تالا توڑ گروپ بھی سرگرم عمل ہے۔

دن دھاڑے ڈاکو کسی بھی تاجر کو لوٹنے کے لیے اس کی دُکان میں گھستے ہیں اور مزاحمت پر فائرنگ سے بھی دریغ نہیں کرتے، سکھر میں ایک واردات میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران فائرنگ کردی، جس سے دُکان کا مالک اور مینجر دونوں جاں بحق ہوگئے۔ ایک جانب سکھر پولیس ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن کررہی ہے اور متعدد ڈاکوؤں کو ہلاک کر کے ان سے بھاری اسلحہ برآمد کیا گیا اور درجنوں ڈاکوؤں کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تو دوسری جانب شہر میں لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ جرائم کی ایک نئی لہر ہے جو کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں آئی ہے۔

سکھر پولیس نے گزشتہ دنوں گنجان آبادی نیم کی چاڑی پر ہونے والی ڈکیتی کے ملزمان کو گرفتار کر کے لوٹی گئی رقم اور دیگر سامان برآمد کروایا، ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں کی سربراہی میں ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ سندھ میں اس وقت سب سے خطرناک ریجن سکھر ہے جہاں کچے کے جنگلات شاہ بیلو میں ڈاکوؤں کے درجنوں گروہ موجود ہیں، جو پولیس کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں،ڈاکو اغوا برائے تاوان کی فزیکلی وارداتوں کے ساتھ اب نسوانی آواز میں بھی لوگوں کو کچے میں بلا کر اغوا کر لیتے ہیں اور شاہ بیلو سندھ میں ڈاکوؤں کا وہ محفوظ گڑھ ہے، جہاں نہ صرف سندھ کے مختلف شہروں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آکر ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔گزشتہ ایک ماہ میں ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ نے 30 افراد کو اغوا ہونے سے بچایا ہے، کچے میں پہنچنے والے ان افراد کو ریسکیو کر کے واپس ان کے علاقوں میں بھجوایا گیا، جن میں کراچی، کوئٹہ، بہاولپور ، حیدرآباد ، سکھر ، مٹیاری، مظفر گڑھ سمیت دیگر علاقوں کے لوگ شامل تھے۔

اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو 4 سے 5 سال قبل ڈاکوؤں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑی حد تک ختم ہوگئیں تھیں، لیکن اب گزشتہ دو سال کے دوران اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے، آخر پولیس کی گرفت جرائم پیشہ عناصر پر اتنی کمزور کیوں پڑتی جارہی ہے۔ 2018 میں انتخابات کے وقت آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا تبادلہ ہوگیا اور دو سال تعیناتی کے دوران حکومت سے اختلافات رہے،لیکن پولیس میں سیاسی مداخلت کو کسی صورت برداشت نہیں کیااور سندھ میں مثالی امن قائم کیا۔ اس کے بعد آئی جی سید کلیم امام بھی ایک سال 2019 میں آئی جی سندھ رہے۔

ان کے اور حکومت سندھ کے درمیان بھی اختلافات کی خبریں عام رہیں ۔ ان کے تبادلے کے بعد آئی جی سندھ مشتاق مہر کی تعیناتی ہوئی تو یہ امید کی جارہی تھی کہ اب سندھ میں امن و امان کی صورت حال پہلے سے بہتر ہوگی، ایسا ممکن نہ ہو سکا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کی تعیناتی کے بعد آج تک ان کے اور حکومت کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی جو کہ خوش آئند بات ہے، لیکن اس دوران امن و امان کی خاص طور پر چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان ، اسٹریٹ کرائم سمیت مجموعی صورتحال گذشتہ دو سال کے مقابلے میں خراب اور اب خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ سندھ سے تعلق اور پولیس فورس میں اچھی شہرت رکھنے والے افسران جن میں اے ڈی خواجہ جو محتسب اعلیٰ ہیں، ثناء اللہ عباسی آئی جی کے پی کے ہیں، سلطان علی خواجہ، ڈاکٹر نجف مرزا ایف آئی اے میں ہیں ،آفتاب پٹھان موٹر وے پولیس میں ہیں، عبداللہ شیخ، خادم حسین رند سمیت دیگر بالا افسران سائیڈ پوسٹ پر ہیں، آخر ایسا کیوں ہے۔اگر حکومت قیام امن میں سنجیدہ ہے تو سندھ سے تعلق رکھنے والے شہرت یافتہ افسران کی خدمات حاصل کیوں نہیں کی جاتیں؟ اس وقت سندھ میں شاہ بیلو میں اتنی خطرناک صورت حال ہے کہ ڈاکو جدید ہتھیاروں کے ساتھ پولیس کو چیلنج کررہے ہیں۔

ایک سال میں ڈاکوؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جدید ہتھیاروں کے ساتھ پولیس کے افسران، جن میں سکھر اور کشمور پولیس کے ایس ایس پی کو تبادلہ کرانے اور پولیس پر حملوں کا انتباہ دیا گیا ہے، خاص طور پر کشمور پولیس کی کارروائیوں کے بعد ڈاکووں کا دھمکی والا پیغام ایس ایس پی کشمور کے لیے سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔ جس کے بعد کشمور پولیس نے آپریشن تیز کردیا ہے اور اس کی سربراہی خود ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کررہے ہیں۔

پولیس کے بالا افسران بھی سکھر ریجن میں واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار جن میں جی تھری، اینٹی ایئرکرافٹ گن سمیت دیگر ہتھیار موجود ہیں، جن سے وہ پولیس پر حملہ یا مقابلہ کرتے ہیں،لیکن یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ ان بیانات کے بعد صوبائی حکومت یا پولیس کے سربراہ آئی جی سندھ نے کیا اقدامات کیے ؟ ڈاکوؤں کے پاس ان خطرناک ہتھیاروں کے باوجود سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سکھر ریجن سمیت سندھ میں جو پولیس کے مورال کو بلند کیا اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کی سرکوبی کو یقینی بنایا تھا، وہ مثال بھی موجود ہے، سندھ میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو بہتر بنانے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ، قیام امن کے لیے حکومت کو خصوصی توجہ دینا ہوگی ، بعض سینئر پولیس افسران کے مطابق جب تک پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں کیا جائے گا اور میرٹ پر تقرریاں نہیں ہوں گی، اس وقت تک امن وامان کی فضا ء کو مکمل طور پر بحال رکھنا نہ صرف مشکل، بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔