سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش عروج پر

February 25, 2021

سینٹالیکشن کیلئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کشمکش عروج پر ہے ، دونوںفریق اپنے اپنے امید واروں کی کامیابی کیلئے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے درمیان بڑا مقابلہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور حکومتی امید وار مشیر خزانہ حفیظشیخ کے ساتھ ہو گا، پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کر کے بہت بڑا سیاسی رسک لیا ہے ۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری اپنے سیاسی پتے اچھے طریقے سے کھیلنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ،مگر کبھی کبھی بڑا کھلاڑی بھی مات کھا جاتا ہے ۔

پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے سینٹکا الیکشن لڑنے سے کترا رہے تھے مگر آصف علی زرداری نے ان پر زور دیا کہ وہ کھڑے ہو جائیں ،انہیں جتوائیں گے جس پر یوسف رضا گیلانی بادل نخواستہ کھڑے ہو گئے اگر وہ جیت گئے تو انکی کامیابی اپوزیشن کیلئے دور رس نتائج کی حامل ہو گی اگر گیلانی صاحب ہار گئے تو پیپلزپارٹی کی عدم اعتماد کی تحریک کے فارمولے کو بھی دھچکا لگے گا اور پی ڈی ایم میںبلاول بھٹو زرداری کے موقف کی سہکی ہو گی اور سید یوسف رضا گیلانی کی ذاتی سیاست اور شخصیت کو بھی زبردست دھچکا لگے گا۔

سید یوسف رضا گیلانی کے سینٹکا الیکشن لڑنے سے پی ٹی آئی کی حکومت دبائو میںآگئی تھی ، وزیر اعظم عمران خان ، وفاقی وزرا ، صوبائی گورنر ، وزرائے اعلیٰ پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان متحرک ہو گئے وزیر اعظم نے اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ، وزیر اعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے قائدین سے بھی رابطے کئے ناراض لوگوں کو راضی کیا ،اب لگتا ہے حکومت پہلے سے بہتر پوزیشن میں آگئی ہے جسکی وجہ سے آصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمان سے بھی تازہ ترین رابطے کئے اور ان سے سینٹالیکشن میںیوسف رضا گیلانی اور دوسرے امید واروں کو بھر پور انداز میںکامیاب کرانے کیلئے تعاون مانگا ہے ،یوسف رضا گیلانی نے بھی مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے کیئے ہیںاو راسکے بعد وہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اہم صلاح مشورے اور اب تک کی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے کراچی گئے ، حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔

دونوں کی خرید وفروخت کی تیاریاں شروع ہیںاور مختلف آفرز اراکین اسمبلی کو دی جارہی ہیںخفیہ اداروں نے وزیر اعظم عمران خان کو جو رپورٹدی ہے اسکے مطابق 60 سے 70 کروڑروپے فی ووٹقیمت لگ چکی ہے رپورٹکے مطابق نوٹوں سے بھرے بھیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، جن ممبران کو آفر کی گئی ہے ان میںسے کئی اراکین نے اپنے وزیر اعظم عمران خان کو بھی آگاہ کر دیا ہے ،وزیر اعظم مختلف تقاریب میں یہ باتیںواشگاف الفاظمیں کہہ چکے ہیںکہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی منڈی لگ چکی ہے اور اراکین کو 70 کروڑ اور اس سے زیادہ تک کی پیشکش ہو ئی ہے۔

آصف علی زرداری کو اپنے امید وار کو جتانے کیلئے 15ووٹ خریدنے ہیںاور انکی قیمت دس گیارہ ارب روپے ہے اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لئے اتنی رقم لگانا کوئی مشکل کام نہیں، ممبران کو یہ بھی پیش کش کی جارہی ہے ،رقم ملک کے اندر دیں یا ملک سے باہر پہنچائی جائے سینٹمیںووٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ سپریم کورٹمیں صدارتی ریفرنس کے دوران زیر بحثرہا اور ججوں کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیںووٹوں کی فروخت کے سامنے کوئی بندتو باندھنا ہو گا۔

حکومت اور پی ڈی ایم میں شامل گیارہ سیاسی جماعتوں اور قوم کی نظریںسپریم کورٹکے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں کہ سپریم کورٹصدراتی ریفرنس کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے ،وزیر اعظم عمران خان صاحب کا یہ موقف درست لگتا ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میثاق جمہوریت میں خفیہ ووٹنگ ختم کرنے کا طے کیا مگر اب اس پر قائم نہیںرہیں، اگر اوپن بیلٹسے کرپشن اور دھاندلی کاخاتمہ ہو سکتا ہے تو اپوزیشن کیوںمخالفت کر رہی ہے ، اسکا مطلب ہے ووٹخرید کر سینٹمیں زیادہ نشستیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

جیسے ماضی میںکیا گیا ، بہر حال حکومت اور پی ڈی ایم میںرسہ کشی جاری ہے ،حکومتی وزرا ء 30 سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں،دیکھیں الیکشن میںکیا ہوتا ہے ۔پنجاب ،سندھ ،کے پی کے میںضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا، مگر افسو سناک بات یہ ہے کہ پنجاب کے ایک حلقے ڈسکہ میں خونی الیکشن ہوئے اور دو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔

حکومت کے نمائندے عثمان ڈار نے الزام لگایا کہ رانا ثنا ءاللہ مسلح افراد کے ہمراہ پولنگ سٹیشنوں پر آئے گڑ بڑ کی اور انکے بندوںنے فائرنگ کی جسکے نتیجے میںدو معصوم لوگ مارے گئے ۔قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی دو دو نشستوں پر انتخاب ہوئے اور ان میں سے کرم کے علاوہ دیگر تین علاقوں سے پی ڈی ایم کے امید وار جیتے ، جبکہ ڈسکہ کا رزلٹروک لیا گیا ہے تحریک انصاف اپنی جیت اور مسلم لیگ ن والے زپنی کامیابیوںکے وعدے کر رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرتا ہے ۔

بہر حال یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جن ضمنی حلقوں میںتحریک انصاف کو شکست بھی ہوئی ہے وہاں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے امیدوارں کے دونوں کا فرق بہت کم ہے۔