• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل قائداعظم کا یومِ پیدائش تھا۔ ایمان، اتحاد، تنظیم، مذہبی رواداری، سیاسی یگانگت اور قومی ہم آہنگی سے متعلق عظیم قائد کے افکار و نظریات، بحیثیت ریاست اور قوم ترک کئے دہائیاں بیت چکیں۔ قومی میڈیا پر عظیم قائد کا یومِ پیدائش منانا محض ایک رسمی فریضہ، طوعاً و کرہاً اتمامِ حُجت ہی سمجھیں ۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کے دن تقاریر و تقریبات انکے افکار و نظریات کو ریاستی پالیسی اور اجتماعی معاشرتی رویّوں میں ڈھال کر مناتی ہیں۔ جبکہ مردہ قوموں کیلئے انکا اندرونی احساسِ جرم بجائے فخر کے بوجھ بن جاتا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ ہم یہ دن کیسے منا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس دن کا بوجھ اٹھانے کے اہل بھی رہ گئے ہیں ؟ قائداعظم کا خواب ریاست میں ایک نظریاتی جمہوری مستحکم سیاسی نظام کا نفاذ تھا ، آج کوسوں دور ہیں ۔ سیاسی افراط و تفریط کی دلدل میں دھنسی مملکت ، میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ ریاست اور مقبولیت ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں ۔ وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام کا ہیجان برپا ہے ۔ دونوں فریق جذبہ ایمانی اور خداوندی تائید کے دعویدار ، ایک دوسرے کو ملک دشمن کے القابات سے نواز رہے ہیں ۔

14 اگست 2023 کو نگران وزیراعظم کی تقریب حلف وفاداری میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے جناب مجیب الرحمان شامی کی معیت میں چند منٹ کا آمنا سامنا ہوا ۔ چیف صاحب ! مخاطب تھے ، " شامی صاحب ! پاکستان کا مثبت امیج اُبھاریں ، پاکستان بہت ترقی کرنے کو ہے "۔ 18 اگست 2023 کو میں نے " چیف صاحب ، مثبت سوچ ، خوشحال پاکستان" کالم لکھا، پہلا پیراگراف دوبارہ حاضر ہے … ، ’’کیا خوشحال پاکستان ، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن ہے ؟ اگرچہ تاریخ میں ایسا کوئی سبق موجود نہیں، نامساعد حالات میں مثبت سوچ نعمت ِ غیر مترقبہ ہے ۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے آمنا سامنا ہوا تو چیف صاحب نے شامی صاحب کو مثبت رویوں کو اپنانے اور انکی ترویج کی تلقین کی ۔ قطع نظر کہ شامی صاحب نے اپنے طور ساری زندگی ہمیشہ مثبت سوچ اپنائی ، انتہائی نامساعد صورتحال میں بھی اُمید و بیم کی شمعیں جلائے رکھیں ۔ بات خوش آئند اتنی کہ چیف صاحب نے اپنا اوڑھنا بچھونا پاکستان کے درخشاں مستقبل سے وابستہ کر رکھا ہے ۔ میرے لیے حوصلہ افزا ضرور کہ چیف صاحب کی پہلی ترجیح پاکستان کو ساتویں آسماں پر دیکھنا ہے ۔ میری سوچ کا زاویہ ہمیشہ سے مختلف ، سیاسی استحکام کی کوکھ سے خوشحال درخشاں شادآباد پاکستان نے جنم لینا تھا۔ سوال ! کیا مملکت بالآخر عدم استحکام سے استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے ‘‘آج بھی میرا عقیدہ یہی کہ جب تک مملکت ایک مستحکم سیاسی نظام سے دور ہے ، مصائب و مشکلات دوچند رہنے ہیں ۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا آرمی چیف بننا میرے لئے خدائی معجزے سے کم نہیں تھا۔ کئی کالموں میں عرض کی کہ چیف صاحب کے چیف بننے میں اللّٰہ کا ہاتھ تھا۔ چیف بننے سے لیکر آج تک محیرالعقول کارنامے اور واقعات ایسے رونما ہوئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا سایہ چیف صاحب کے سر پر آج بھی تناہے ۔ خیرہ کن معجزات اور محیرالعقول واقعات نے مملکت کو بین الاقوامی سطح پر عزت و وقار سے سرشار کر رکھا ہے ۔ بھارتی شکست کے بعد تو گویا عزت و وقار شہرت کے تمام بین الاقوامی ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں ۔ بڑی طاقتیں متاثر ، علاقائی طاقتیں مداح ، جبکہ حال میں سعودی عرب کا بڑا اعزاز کنگ عبدالعزیز میڈل گلے کا ہاربنا ۔ مگر کیا کیا جائے کہ ملک میں موجود افراط و تفریط ، افراق و تفریق ، شدید گروہ بندی نے ملکی سیاسی ماحول پراگندہ کر رکھا ہے ۔

ریاست اور مقبولیت کا ٹکراؤ وطنی بدنصیبی ہی تو کہلائے گا، جبکہ دونوں کو اپنے جذبہ ایمانی اور سرفروشی پر بھی کامل یقین ہے ۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو زیر کرنے میں جھوٹ ، مبالغہ ، غلو کی بوچھاڑ کر رکھی ہے ۔ ملک بھر شہر شہر ، قریہ قریہ ، گلی کوچہ ، گھر گھر میں انتشار اور گروہ بندی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ سیاسی بیانیوں نے اچھے بُرے کام مقام کی تمیز ختم کر رکھی ہے ۔ ریاست کے ایوانوں میں یا مقبولیت کے خانوں میں ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ ہے ، دونوں فریق مبالغے میں ہیں ۔ ریاست کو کریڈٹ ، باوجودیکہ اقتدار سے علیحدگی پر مقبولیت نے ریاستی اداروں پر رقیق حملے کئے ، ریاست کیخلاف جہاد کا اعلان کیا مگر آفرین ہے ریاست مشتعل نہ ہوئی جب تک کہ 9 مئی نہ ہوا ۔ 9 مئی 2023 سے پہلے تو افہام و تفہیم اس درجے پر کہ اپریل 2023 ریاست اور مقبولیت نئے انتخابات پر بھی رضامند ہو گئے ۔ مقبولیت کی سیاسی عاقبت نااندیشی کہ طے معاملے کو خود ہی سبوتاژ کیا ، اپنے ہی قائدین کی ساکھ برباد کر ڈالی ۔ 9 مئی کے اندوہناک واقعہ کے بعد بھی اگرچہ ریاست نے افہام و تفہیم یا مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی۔ ساتھ ساتھ اپنے اختیارات سے تجاوز بھی کیا۔

آج ریاست اور مقبولیت میں کون ایمان، اخلاق ، حق ، سچ کے کس درجے پر فائز ہے، میری غرض اتنی کہ موجودہ ٹکراؤ نے انارکی کو جنم دینا ہے ، وطنی سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ اگر ایوب خان کا 10 سالہ ترقیاتی دور ، جنرل ضیاء الحق دور میں وطن عزیز پر ڈالرز کی بارش ، جنرل مشرف اقتدار میں پوری لوئر مڈل کلاس کا اپر مڈل کلاس میں پہنچنا اور اپر مڈل کلاس کا امرا اور رؤسا بننا ، سیاسی استحکام سے عملاً دور لے گیا تو ماننے میں حرج نہیں کہ آج بھی مستحکم سیاسی نظام کے بغیر مملکت بارے سارے خواب درہم برہم رہنے ہیں ۔ ریاست کا سوا سال سے مقید جنرل فیض حمید کیسز کو پس پشت ڈالنا، اسی بات کی غمازی کہ مقبولیت کیلئے اب بھی ایک مفاہمت یا معاملہ فہمی کا دروازہ کھلا ہے ۔ کاش ! مقبولیت اپنی توانائیاں، خواب خیالیوں اور افراط و تفریط بڑھانے میں خرچ نہ کرتی، افہام و تفہیم سے معاملہ فہمی کر پاتے ۔ مقبولیت کو سمجھنا ہوگا کہ ریاست کو ان سے معاملہ فہمی میں کوئی فائدہ نہیں ، سارے ریاستی کردارگھاٹے میں ہیں۔ اگر مقبولیت اپنی ذات منہا کرکے کوئی اصولی مفاہمتی فارمولا آگے بڑھائے، ایک عرصہ اپنے آپکو سیاست سے دور رکھے ، تو وقت خود ایک بڑا مرہم ہے۔ پہلی فرصت میں آدھا کھلا دروازہ ، پورا کھل جائیگا اور مقبولیت کا ایک وقت ضرور آئیگا۔ دوسری طرف ریاست پر ذمہ داری کہ تحفظ آئین پاکستان کے اصولی مطالبات کہ پارلیمان ، آئین اور قانون کی بالادستی کو صدق دل سے نافذ کردے تو یقین دلاتا ہوں کہ ایک طرف جیت ریاست کی ہوگی اور دوسری طرف مقبولیت کسی بڑے نقصان سے بچ بچا کر اپنے وقت پر حکمران ہو گی۔

تازہ ترین