آپ وزیر نہیں رہ سکتے!

February 26, 2021

شاید آپ کو یاد ہو انگریز عہد میں سب سے پہلا ریلوے ٹریک کراچی کے علاقے کیماڑی میں بنایا گیا پھر پورے برصغیر میں ریلوے کا بھرپور نظام بنایا گیا۔ بڑے بڑے لیڈر ریل پر سفر کرتے رہے۔1947ء کے بعد ہندوستان میں پہلے ایک مسلمان وزیر نے ریلوے کی اٹھان میں کردار ادا کیا اور پھر بہت بعد میں بہار کے لالو پرشاد یادیو نے ریلوے کو انتہائی منافع بخش بنا دیا۔

آج بھی ہندوستان میں ریلوے کا مربوط نظام ہے وہاں ریل ٹرانسپورٹ کا ایک کامیاب ذریعہ ہے، مسافروں کا پہلا انتخاب صرف اور صرف ریل ہے، سامان لانے لے جانے کے لئے بھی ریل ہی کا استعمال ہوتا ہے، بھارت میں سامان لانے لے جانے والا کوئی بھی ٹرک پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں جا سکتا۔

یوں سمجھ لیجئے کہ سامان سمیت ایک ٹرک راولپنڈی سے ملتان تو جا سکتا ہے مگر سکھر یا حیدر آباد نہیں مگر ہمارے ہاں تو پشاور سے کراچی تک ٹرکوں کی قطاریں جاتی ہیں، اس سے سڑکیں خراب ہو جاتی ہیں ہمیں ہر سال جہاں ریلوے کے لمبے چوڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں ہمارا کثیر سرمایہ سڑکوں پر لگ جاتا ہے یعنی دوطرفہ بربادی ہو رہی ہے۔ یہ کھیل اس وقت تیزی سے شروع ہوا جب غلام احمد بلور ریلوے کے وزیر بنے، یہ پی پی کا زمانہ تھا، مال گاڑیوں کو پتہ نہیں کدھر کر دیا گیا، اب مال گاڑیاں نظر ہی نہیں آتیں۔

خواتین و حضرات !ہماری آنکھوں کے سامنے بربادیوں کا سفر جاری رہا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں، پینتیس چالیس سال کا سفر ہے‘ ضیاء الحق اس ملک میں ایسے لوگوں کو اقتدار میں لائے جو لوہے کی مل کے مالک تھے۔ انہوں نے ہماری کئی ٹرینیں بند کروائیں، ٹرانسپورٹ مافیا کےساتھ مل کر ریل کے سفر کو ناکارہ بنایا ۔

کچھ روٹس پر ٹرینیں کم اور کچھ پر مکمل بند کر دی گئیں۔ دربار صاحب کرتار پور کے قریب سے ایک ریلوے ٹریک ڈیرہ بابا نانک کی طرف جاتا تھا، یہ ریلوے لائن جسڑ کے مقام سے الگ ہوتی تھی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹریک اکھاڑا گیا پھر کسی کی مل کا ایندھن بن گیا، پتہ نہیں کتنے ریلوے انجن بھٹیوں کی نذر ہو گئے۔

چکوال کا ریلوے ٹریک بڑا مشہور تھا، اس ٹریک کو بھی ختم کرکے ملوں کی نذر کیا گیا۔ چکوال میں ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کروایا گیا، یہ سب کچھ ملک کے ٹھیکیداروں نے کیا، میانوالی میں کندیاں اور ماڑی انڈس جانے والی ٹرینوں کو بند کر دیا گیا۔ یہی کھیل بہاولنگر میں ہوا، ٹریک اکھاڑ کر ملوں کی نذر کر دیے گئے جو ٹریک اکھاڑے گئے وہاں صرف ٹریک کا لوہا نہیں تھا، وہاں لوہے کے پل بھی تھے، پاکستان کا یہ قیمتی سرمایہ مٹی سے بھی کم قیمت پر ملوں کو دے دیا گیا۔ ریلوے کے ساتھ تین کام ہوئے۔ ریلوے ٹریک اکھاڑے گئے اور ملوں کی نذر کئے گئے۔

ٹرک مافیا کے ساتھ مل کر مال گاڑیوں کو ختم کر دیا گیا جب کہ ٹرانسپورٹ مافیا کے ساتھ مل کر کئی روٹس ختم کر دیئے گئے، باقی جگہوں پر ریل کی آمدورفت میں تاخیر کو یقینی بنایا گیا، باقی کسر ریلوے کے ملازمین نے خود پوری کر دی۔

فرض کریں آپ ریلوے کے وزیر بن جاتے ہیں، آپ بڑے انقلابی ہیں، آپ ریلوے کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے آپ کو پہاڑ جتنے خسارے کا سامنا ہو گا، آپ اس خسارے کو ختم کرنے کا سوچیں گے

اس کےلئے منصوبہ بندی کریں گے، منصوبہ بندی سے قبل آپ کی ایک نظر بکے ہوئے ریلوے ٹریکس پر جائے گی مگر اس کا آپ کے پاس حل نہیں پھر آپ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے ریلوے کی زمینوں پر نظر دوڑائیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ بہت سے اراکین اسمبلی نے ریلوے کی زمینوں پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ قبضہ کرکے انہیں بیچ بھی دیا، آپ خالی کروانے کی کوشش کریں گے تو آپ کے خلاف مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔

ریلوے افسران آپ کو ریکارڈ ہی فراہم نہیں کریں گے کیونکہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا رہا، آپ کو چند زرعی زمینیں بتائی جائیں گی اور کہا جائے گا وہ بھی لیز پر دی گئی ہیں۔ پھر آپ کی نظر مہنگی زمینوں پر قائم ریلوے افسران کی بڑی بڑی رہائش گاہوں پر جائے گی، بس پھر آپ کے سامنے یہی افسران دیواریں کھڑی کر دیں گے۔

آپ مال گاڑیاں چلانے کی کوشش کریں گے تو ٹرک مافیا آپ کا دشمن بن جائے گا، آپ ٹرینوں کی آمدورفت درست بنانے کی کوشش کریں گے تو ٹرانسپورٹ مافیا دشمنی پر اتر آئے گا، اس دشمنی میں ریلوے کے ملازمین بھی شامل ہو جائیں گے، ٹرینوں کے حادثے ہوں گے، آپ ریلوے اسٹیشنوں پر صفائی کا سوچیں گے جیب کتروں اور گداگروں کا خاتمہ چاہیں گے تو ریلوے کے اندر بیٹھا مافیا آپ کے خلاف ہو جائے گا۔

آپ ٹریک کی درستی اور ٹریک پر پتھر ڈالنے کے ٹھیکوں کا جائزہ لیں گے تو افسر آپ کا جینا حرام کر دیں گے۔ خسارہ بڑھتا جائے گا، آپ کو راستے بند ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، ابھی تو آپ نے ریلوے ورکشاپس کا جائزہ لینا تھا مگر یہاں تک کے سفر ہی میں آپ کو چھ سات مافیاز سے اتنا لڑنا پڑے گا کہ اس لڑائی میں آپ وزیر نہیں رہیں گے، یہ مافیاز کئی وزیر کھا چکی ہیں، یہاں جب تک سخت سزائیں نہیں ملیں گی، نظام درست نہیں ہو گا۔ فی الحال تو مجھے سرور ارمان کا شعر یاد آ رہا ہے کہ؎

سرجھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد

تختہ دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی