جاپان کے چھ ممالک سے سرحدی تنازعات

February 28, 2021

صرف پاکستان ہی دنیا میں وہ واحد ملک نہیں جس کے اپنے پڑوسی ملک بھارت سے سرحدی تنازعات ہیں بلکہ دنیا کے کئی اور اہم ممالک بھی ہیں جن کے اپنے پڑوسی ممالک سے سرحدی تنازعات موجود ہیں تاہم ان ممالک نے اپنی قومی ترقی کو ان تنازعات پر قربان نہیں کیا بلکہ تنازعات کے حل کے لئے کوششیں جاری رکھتے ہوئے قومی ترقی کے سفر کو بھی رواں دواں رکھا ہے۔ جاپان بھی دنیا کے ان ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے جس کے اپنے پڑوسی ممالک سے سرحدی تنازعات ایک طویل عرصے سے ہیں لیکن ان تنازعات کے باعث جاپان کی حکومت نے کبھی اپنی قومی ترقی کو متاثر نہیں ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں ایٹمی تباہی دیکھنے کے باوجود جاپان نوے کی دہائی میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر منظر عام پر آیا اور آج امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر عالمی منظرنامے پر موجود ہے۔ ہم آج اپنے قارئین کو بتاتے ہیں کہ جاپان کے کن کن ممالک سےسرحدی تنازعات ہیں: حقیقت یہ ہے کہ جاپان ایک جزیرہ نما ملک ہے جس کی دنیا کے کسی بھی ملک سے سرحد نہیں ملتی تاہم جاپان کے کئی جزائر پر مختلف ممالک نے قبضہ کر رکھا ہے یا کئی ممالک جاپان کے زیر قبضہ جزائر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جاپان کا سب سے پہلا تنازعہ تو دوسری جنگ عظیم میں امریکہ سے شکست کے بعد امریکہ کے ساتھ ہی پیدا ہوگیا تھا جب امریکہ نے 1945ء میں جاپان پر قبضہ کرلیا تھا جو 1952تک برقرار رہا تاہم امریکہ نے 1952میں جاپان کو آزاد و خود مختار ملک قرار دینے کے باوجود جاپان کے معروف ترین شہر اوکیناوا پر قبضہ برقرار رکھا اور یہ قبضہ جاپان کے پُرزور اصرار پر 1972ء میں ختم کرکے اوکیناوا کو جاپان کے حوالے کیا گیا۔۔ ستر اور اسی کے عشرے میں جاپان کی ترقی کا سفر تیزی سے جاری تھا لیکن جاپان اس بات سے قطعاً غافل نہیں تھا کہ اس کے کئی اہم جزائر پر دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جاپان کی شکست کے بعد کئی دوسرے ممالک نے قبضہ کرلیا تھا، اس وقت جاپان کے جن ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں، ان میں روس، فلپائن، چین ، تائیوان اور جنوبی و شمالی کوریا شامل ہیں، اس وقت سب سے اہم تنازعہ جو جاپان اور چین کے درمیان کسی بھی وقت فلیش پوائنٹ کا سبب بن سکتا ہے، وہ جاپان اور چین کے درمیان موجود Senkaku Island سنکیاکو آئی لینڈ کا ہے‘ یہ جزیرہ جاپان کی ملکیت اور زیر قبضہ ہے تاہم چین کا دعویٰ ہے کہ یہ جزیرہ چین کی ملکیت ہے جس پر جاپان نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے، یہ جزیرہ دونوں ممالک کے لئے اس لئے اہمیت کا باعث ہے کہ اس جزیرے کے زیر سمندر انتہائی وافر مقدار میں تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چین کی کوشش ہے کہ اس جزیرے کو جاپان سے حاصل کرلیا جائے اور جاپان امریکہ کے ذریعے اس جزیرے پر اپنی ملکیت قائم رکھنا چاہتا ہے لیکن امریکہ نے تاحال جاپان کو اس جزیرے کا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی طرح کی فوجی مدد کی یقین دہانی نہیں کروائی۔ دوسری جانب چین نے اس جزیرے پر قبضے کے لئے اپنی بحری افواج کو جاپان کی سمندری حدود میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے جس کے لئے جاپان نے بھی اپنے دفاع کے لئے طاقت کے استعمال کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس تنازعے کا کیا حل ممکن ہو گا؟ جاپان کا دوسرا بڑا تنازعہ روس کے زیر قبضہ جاپانی جزیرے کرل آئی لینڈ Kuril Island پر ہے، یہ جزائر دوسری جنگ عظیم تک جاپان کے زیر قبضہ رہے تاہم دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد روس نے حملہ کرکے ان جزائر پر قبضہ کرلیا تھا اور آج تک ان جزائر پر روس کا قبضہ ہے جس کو ختم کرانے کیلئے جاپان سفارتی سطح پر پرامن کوششیں کرتا نظر آتا ہے۔ تیسرا بڑا تنازعہ Okinotorishima جزائر کے حوالے سے ہے، یہ جزائر فلپائن کی سمندری حدود میں واقع ہیں‘ 1931ء میں ان جزائر کو جاپان نے دریافت کیا تھا، اس کے بعد سے آج تک ان جزائر پر جاپان کا قبضہ ہے تاہم ان اہم جزائر پر چین سمیت تائیوان اور جنوبی کوریا بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہے لیکن جاپان نے بھاری سرمایہ کاری کرکے ان جزائر کو اسپیشل اکنامک زون میں تبدیل کردیا ہے،liancourt Rocks نامی جزائر بھی پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک جاپان کی ملکیت رہے تھے تاہم دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد امریکہ اوردیگر ممالک کے دبائو پر یہ جزائر جنوبی کوریا کے حوالے کردیئے گئے تاہم آج بھی یہ جزائر متنازعہ سمجھے جاتے ہیں اور دونوں ممالک ان جزائر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان متعدد تنازعات کے باوجود جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور جن ممالک سے تنازعات ہیں، ان کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم بھی اربوں ڈالر میں ہے‘ یہ پاکستان جیسے ممالک کے لئے ایک سبق ہے کہ تنازعات کے لئے معیشت کو قربان نہ کیا جائے بلکہ ملک اور عوام کی ترقی کے لئے تجارت اور تنازعات کو الگ الگ رکھا جائے ورنہ پاکستان کی ترقی کا سفر مشکل ہی رہے گا۔