چینی پھر غائب؟

March 01, 2021

رسد وافر مقدار میں ہونے کے باوجود رمضان المبارک کی آمد سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ہی چینی کی قلت پیدا ہو جانا متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر کے یوٹیلیٹی اسٹوروں پر گزشتہ دو روز سے چینی غائب ہے اور یہاں سے خریداری کرنے والے کم آمدنی والے صارفین اوپن مارکیٹ سے 30سے 35روپے فی کلو مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹوروں پر چینی کی قیمت 68روپے فی کلو مقرر کر رکھی ہے جو کھلی مارکیٹ اور نجی اسٹوروں پر 95سے 100روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے اور قیمتیں کنٹرول کرنے والے ادارے اس کے باوجود متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر صورتحال جوں کی توں رہی اور صارفین کو گراں فروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو چینی کے ساتھ جملہ اشیائے ضروریہ کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کا صارفین کی پہنچ سے باہر ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا اس ضمن میں یہ موقف ہے کہ خریداری کی زیادتی کے باعث سستی چینی کی کمی واقع ہو رہی ہے لیکن زمینی حقائق یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ دو ماہ سکون سے گزر جانے کے بعد ذخیرہ اندوز مافیا ماضی کی طرح پھر سے سرگرم ہو چکا ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت مارکیٹ سے کونسی چیز غائب ہو جائے۔ سرکاری مشینری اور یوٹیلٹی اسٹورز کی کالی بھیڑوں کی ملی بھگت کے بغیر ناجائز منافع خور مافیاؤں کا سرگرم رہنا ممکن نظر نہیں آتا۔ وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطحوں پر بھاری بھر کم بجٹوں کے ساتھ قیمتیں کنٹرول کرنے والے ادارے موجود ہیں لیکن بیشتر اپنی کارکردگی صفر ہونے کی وجہ سے الٹا ملکی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ وفاقی کابینہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے پہلے ہی سنبھال لے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998