پاکستان کی ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ

March 01, 2021

بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ترسیلاتِ زر کے ذریعے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کے وہ ہیروز ہیں جو اپنی رات دن کی محنت کی کمائی ہر مہینے اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کیلئے وطنِ عزیز بھیجتے ہیں۔ گزشتہ 7مہینوں سے بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو ماہانہ اوسطاً 2ارب ڈالر سے زائد ہوگئی ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں جولائی سے جنوری تک 24.9فیصد ریکارڈ اضافے سے 14.2ارب ڈالر ہوچکی ہیں۔

ملکی ترسیلاتِ زر کا 60فیصد صرف دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے موصول ہوا ہے جس میں جولائی سے دسمبر 2020تک سعودی عرب سے 4ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات خصوصاً دبئی سے 3ارب ڈالر شامل ہیں جبکہ دیگر خلیجی ریاستوں بحرین، کویت، اومان اور قطر سے مجموعی طور پر 1.2ارب ڈالر موصول ہوئے۔ اِسی طرح برطانیہ سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ 51.7فیصد اضافہ ہوا جو بڑھ کر 1.88ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ یورپی یونین سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر 41.7اضافے سے 1.29ارب ڈالر اور امریکہ سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر 47.5فیصد اضافے سے 1.2ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے پہلے 6 مہینوں میں ترسیلاتِ زر24.2فیصد اضافے سے ریکارڈ 14.2ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ترسیلاتِ زر میں اضافے کی بڑی وجہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا بینکنگ چینل کے ذریعے ترسیلاتِ زر بھیجنا ہے۔ اس سے پہلے ترسیلاتِ زر کی خطیر رقم ہنڈی یا حوالے کے ذریعے بھیجی جاتی تھی لیکن اسٹیٹ بینک کے ترسیلاتِ زر کے طریقہ کار میں اصلاحات اور ’’روشن پاکستان ڈیجیٹل اکائونٹ‘‘ کے اجراء سے اب اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بینکنگ چینل کے ذریعے رقم بھیجنا نہایت آسان ہوگیا ہے جس کی تفصیل میں نے اپنے گزشتہ کالم میں قارئین سے شیئر کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ صرف 5مہینوں میں 86ہزار ’’روشن ڈیجیٹل ‘‘ اکائونٹس میں 550ملین ڈالر سے زائد کی رقوم آئی ہیں جو ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے میں مدد دیں گی۔ پاکستان کے تقریباً 9ملین افراد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔ اگر ان میں سے آدھے لوگ بھی روشن پاکستان ڈیجیٹل اکائونٹ کھولیں تو زرِمبادلہ کی مد میں بہت بڑی رقم ان اکائونٹس میں آسکتی ہے۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو بتایا کہ ایک عرصے کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے پاکستان میں اپنی جمع پونجی فارن کرنسی اکائونٹس میں رکھ کر حکومت پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے اور اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اعتماد کو قائم رکھے۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) کی ’’ایشیاء پیسفک رپورٹ 2019‘‘ کے مطابق، پاکستان 2018میں ترسیلاتِ زروصول کرنے والے دنیا کے 5بڑے ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن میں بھارت 78.6ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ چین 67.4ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، فلپائن 33.8ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، پاکستان 21ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے اور ویتنام 15.9ارب ڈالر کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے حکومت پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے مہنگے قرضے لے رہی ہے، اِن قرضوں پر سود کی ادائیگی قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ دنیا میں زرِمبادلہ کے ذخائر 4ذرائع سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ زرمبادلہ حاصل کرنے کا پہلا ذریعہ ایکسپورٹ ہے۔ ملکی ایکسپورٹس گزشتہ کئی سال سے جمود کا شکار ہیں لیکن اِس سال ایکسپورٹس میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ملکی ایکسپورٹس 25ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ زرمبادلہ حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر ہیں جن میں گزشتہ 7مہینوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو سال کے آخر تک ریکارڈ 28ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ زرمبادلہ کے حصول کا تیسرا ذریعہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ہے جو اِس سال ملک میں جولائی سے جنوری 2021تک صرف 755ملین ڈالر ہوئی جو گزشتہ سال اِسی دورانیے میں 3.44ارب ڈالر تھی، اِس طرح اِس سال بیرونی سرمایہ کاری میں 78فیصد کمی آئی ہے جو کورونا کے دوران سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر کسی ملک کے زرمبادلہ کی ضروریات اِن تینوں ذرائع سے پوری نہیں ہوتیں تو اُس ملک کو چوتھے ذریعے کی طرف جانا پڑتا ہے اور وہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینا ہے جیسا کہ حال ہی میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے قرضے اس کی شرائط پر حاصل کئے ہیں اور ملک پر بیرونی قرضے بڑھ کر 113ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اِن حالات میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ملکی ایکسپورٹ اور ترسیلاتِ زر کو بڑھاکر اپنے زرمبادلہ کی ضرورت کو پورا کرے تاکہ ہمیں بار بار آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض نہ لینا پڑے۔