ﷲ خیر کرے!

March 02, 2021

بالآخر حمزہ شہباز کی ضمانت بھی ہوگئی، رمضان شوگر مل نالہ کیس میں پہلے ہی ضمانت ہوچکی تھی، 20ماہ قید کے بعد منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں بھی ضمانت ہو گئی، لاہورہائیکورٹ کے دورکنی بنچ نے ’ہارڈ شپ‘ کی بنیاد پر ضمانت منظور کی، سماعت کے دوران جج صاحب نے کہا،میرٹ پر تو حمزہ کی درخواست ضمانت خارج ہوچکی، آپ ’ہارڈ شپ‘ کی بنیاد پر دلائل دیں، نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ضمانت کی منظوری کیلئے حمزہ شہباز کی جانب سے ’ہارڈ شپ‘ کا ذکر ہی نہیں کیا گیاکہ انہیں کیا دشواری ہے۔

یہ عدالت کا فیصلہ، مجھے اپنی عدالتوں کا ہر فیصلہ قبول، مگر کہنا یہ ہارڈ شپ مطلب مشکلات کی بنیاد پر ان ہزاروں بے بس، لاچار، عام قیدیوں کی ضمانت کیوں نہیں ہوپاتی جو سالہاسال سے جیلوں میں اصلی ہارڈ شپ بھری قید کاٹ رہے، جان لیوا بیماریوں میں مبتلا، ڈاکٹروں، دوائیوں کے بنا قیدی، 10دس افراد کی بیرکوں میں جانوروں کی طرح ٹھونسے گئے 50پچاس قیدی، سزا ہوئے بنا سزا بھگت رہے قیدی، وہ قیدی جو معمولی جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوں میں سڑ رہے، وہ بچے جو جیلوں میں پیدا ہوئے اور اب قیدی ماؤں کے ساتھ قیدی، وہ خواتین قیدی جنہیں جیلوں میں نجانے کیا کیا کرنا پڑتا ہے، یہاں ہارڈ شپ کیوں نہیں ہوتا، پھر نیب میں بھی کئی عام قیدی ایسے جو دو تین سالوں سے جیلوں میں، درخواست ضمانت دے دے تھک چکے مگر میرٹ پر ضمانت ہوئی نہ ہارڈ شپ پر، مجھے یاد پڑتا ہے سرکاری بینک کا ایک افسر خود چل کر نیب دفتر آیا، کہنے لگا، مجھ سے فلاں جرم ہوگیا، مجھے گرفتار کر لیں، نیب افسر سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ ابھی اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں، اسے گرفتار کیا گیا، وہ اڑھائی، تین سال سے جیل میں، ابھی کیس چل رہا، سزا نہیں ہوئی، وہ دوتین مرتبہ ضمانت کی درخواست دے چکا مگر ہر بار درخواست ضمانت رد ہوگئی۔

خیرا ب آجائیے، ضمانت فیصلے پر، 8صفحاتی فیصلے میں لکھا کہ ’’ پراسیکیوشن کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے ملزمان کو جیلوں میں سڑنے کیلئے لامحدود مدت تک نہیں چھوڑا جا سکتا، ٹرائل کورٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ 110گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے ہیں، ابھی تک 8گواہوں کے بیان ریکارڈ ہوئے، باقی 102گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کیلئے مزید 10سے 12ماہ کا عرصہ درکار، عدالت اس چونکا دینے والی تاخیر کو نظر انداز نہیں کر سکتی چاہے ملزمان یا پراسیکیوشن تاخیر کی ذمہ دار ہو‘‘ اب یہاں ہی رک جائیے، ذرا بتائیے، تبدیلی سرکار کے منشور کا سب سے اہم پوائنٹ کون سا، جی بالکل احتساب، لیکن سوال یہ عمران خان نے بلاامتیاز، اکراس دا بورڈ اور سَچے تے سُچے احتساب کیلئے عملی طور پر کیا کیا؟ جواب ہے کچھ بھی نہیں کیا، باقی چھوڑیں سپریم کورٹ کب سے حکومت سے کہہ چکی کہ 120احتساب عدالتیں اور بنائیں، حکومت کی طرف سے کبھی کہا گیا، فنڈز نہیں، کبھی کہا گیا اتنے ججز کہاں سے لائیں، کبھی کوئی بہانہ تو کبھی کوئی، جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یہ ہر حال میں کرنا تو نئی احتساب عدالتوں کے حوالے سے مرحلہ وار پروگرام شروع ہوا، پہلے مرحلے میں 30احتساب عدالتوں کے قیام کیلئے اقدامات کا آغاز ہوا،اور ابھی تک ایک بھی نئی احتساب عدالت نہیں بنی، اب جن کے منشور کا اہم پوائنٹ احتساب ان کے اڑھائی سالہ اقتدار کے بعد بھی 22کروڑ کے ملک میں صرف 25احتساب عدالتیں اور 925کرپشن کیس ان عدالتوں میں، اب آپ ہی بتائیے لاہو رمیں 5احتساب عدالتیں اور دوسو کرپشن کیسز چل رہے، ایک کیس کی باری کب آئے گی، بااثر ملزمان کی طر ف سے تاخیری حربے اس کے علاوہ، تبھی تو 20ماہ میں صرف 8گواہوں کی گواہی ہو سکی، اب اگر آئے روز منہ زبانی این آر او نہیں دوں گا، این آر او نہیں دوں گا کی بڑھکیں مارنے کی بجائے عملی طور پر احتسابی عمل میں بہتری لائی جاتی، نئی احتساب عدالتیں قائم کر دی جاتیں، سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر سپیڈی احتساب کیلئے اقدامات کرلئےجاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

ضمانت پر باہر آنے کے بعد حمزہ شہباز کہہ رہے تھے کہ ہمارا تو ہر دو رمیں احتساب ہوا، بندہ پوچھے کس دو ر میں اصل احتساب ہوا، بھٹو دورمیں چند فیکٹریاں ہاتھ سے نکلیں مگریہ نہیں بتاتے کہ ضیاء دور میں بھٹواحتساب کی سود سمیت وصولی کی، پرویز مشرف دور میں کہا گیا، ہمیں تو آمر نے کہیں کانہ چھوڑا، حقیقت یہ جب شریف خاندان پرویز مشرف سے ڈیل کے بعد سعودیہ کے سرور محل میں تھا تب حمزہ شہباز پاکستان میں تھا، حمزہ کا یہاں یوں احتساب ہورہا تھا کہ کاروبارپہ کاروبار، کمپنیوں پہ کمپنیاں، جی ہاں، شہباز خاندان کے منی لانڈرنگ کیس میں اس دور کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئیں، ان کے مطابق مشرف دور میں یکم فروری 2005ءکو یورپین کارپوریشن بنی،12مئی 2005کو مدینہ ٹریڈنگ، 29جون 2005کو شریف فیڈ ملز پرائیویٹ لمیٹڈ بنی، 17 اپریل 2006کو مدینہ کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ بنی، 10اپریل 2007کو شریف پولٹری فارمز، 7اکتوبر 2006کو یونیٹا لمیٹڈ بنالی، اندازہ کریں ہردور میں ایسا احتساب ہو اکہ آج بھی مبینہ طور پر 35چالیس فیکٹریاں، پاور ہاؤسسز یہاں، 5براعظموں میں جائیدادیں اسکے علاوہ، سنا یہ بھی گیا کہ مشرف دور میں نیب کا جو جرمانہ بھرا،اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی لے لیا۔

ابھی یہیں پہنچا تھا کہ سینیٹ الیکشن پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا، سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربنچ نے 20سماعتوں کے بعد صدارتی ریفرنس نمٹاتے ہوئے 8صفحاتی رائے دیدی’’ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے، سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوں گے‘‘ عدالت کے موڈ کا آخری سماعت پر ہی پتا چل گیا تھا، جب دوران سماعت یہ ریمارکس آئے کہ ’’ووٹ اوپن یا خفیہ، فیصلہ پارلیمنٹ کا، ہم پارلیمان کا متبادل نہیں، ان کا اختیار نہیں لیں گے، آئین کہتا ہے ووٹنگ خفیہ تو بات ختم‘‘، یہ بھی میری عدالت کا فیصلہ، مجھے اپنی عدالت کا ہر فیصلہ منظور، لیکن وزیراعظم کا کہنا کہ سینیٹر بننے کیلئے 50سے 70کروڑ کی بولی لگ رہی، اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں بیان کہ اسلام آباد میں لوگ نوٹوں کے بریف کیس لئے گھوم رہے اور ہماری سینیٹ انتخابات تاریخ، زرداری صاحب اسلام آباد پہنچ گئے، ﷲ خیر کرے۔