حقوق کے درمیان جنگ

March 04, 2021

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
دنیاوی امور سے نمٹنے کیلئے حالات و واقعات کی روشنی میں کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلے میں روبرو گفتگو سے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ درمیانی مراحل میں کئی عدالتوں سے ریلیف مانگا جاتا ہے اور جب یہاں بھی بات نہیں بن پاتی تو باہمت معاشروں کے لوگ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچ جاتے ہیں، اس مرحلہ پر تمام کیسز کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہوچکی ہوتی ہے اور اس مرحلہ پر نئے شواہد نہیں پیش کیے جاسکتے۔ قارئین لندن سے شام گئیں تین سہیلیوں کی داستان سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے، یہ تین مسلمان ٹین ایجرز چار سال قبل لندن سے براستہ ترکی، داعش کے زیر کنٹرول علاقہ رقا (شام) پہنچیں اور بتدریج اس نظام کا حصہ بن گئیں۔مغربی میڈیا ان تینوں کو کبھی جہادی برائیڈز کا نام دیتا ہے اور کبھی داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے لیے کام کرنے والی پرجوش نوجوان خواتین کے نام سے پکارتا ہے۔ ان میں سے شمیمہ بیگمہ کو برطانوی اخبار نویس ٹونی لائیڈ نے2019ء کے شروع میں شام میں موجود ایک مہاجر کیمپ میں ڈھونڈ نکالا اور13فروری کو دی ٹائمز کے صفحہ اول پر شمیمہ بیگم کی یہ کھلی درخواست ’’Bring Me Home‘‘ شائع ہوئی۔ تب سے شمیمہ کو واپس برطانیہ لانے کیلئے قانونی اور عوامی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں جو اب تک جاری ہیں۔ برطانوی سیاست میں بریگزٹ کی وجہ یہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا جہاں برکسٹ بل پر پارلیمنٹ میں روزانہ کی بنیاد پر بحث چل رہی تھی۔ وزیراعظم ٹریسامے کو کئی طرف سے دبائو کا سامنا تھا۔ اسی غیر مستحکم سیاسی ماحول میں اس وقت کے وزیر داخلہ نے اپنے ایک حکم کے ذریعہ شمیمہ بیگم کی پیدائش کی بنیاد پر ان کی برطانوی شہریت ختم کرنے کے احکامات جاری کردئیے، جہاں مرکزی وجہ یہی بتائی گئی کہ یہ پرتشدد خاتون برطانوی معاشرہ کے لیے خطرہ ہیں اور اگر انہیں واپس برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے تو وہ اس ملک کے عوام کے لیے خطرہ بننے کا سبب بن جائیں گی۔ وزیر داخلہ نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ شمیمہ بیگم ایک بنگلہ دیشی باپ کی بیٹی ہیں۔ اس لیے وہ بنگلہ دیشی شہری بھی ہیں اور اس طرح ہوم سیکرٹری کا یہ فیصلہ انہیں ’’اسٹیٹ لیس‘‘ نہیں کررہا۔ اگرچہ گزشتہ چند دہائیوں میں تقریباً ترین درجن بھر برطانوی لوگوں کی شہریت ختم کی گئی ہے، تاہم ’’پیدائشی برٹش‘‘ شہریوں کی تعداد نہایت کم ہے۔ جن سے شہریت واپس لی گئی ہے۔ وکلا اور تاریخ دانوں کے کئی طبقات نے اس فیصلہ کو غیر منصفانہ کہا، حال ہی میں برطانوی کورٹ آف اپیل (جو سپریم کورٹ کے بعد سب سے بڑی برطانوی عدالت ہے) نے اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں یہ کہا کہ شمیمہ بیگم کے لیے اپنی اپیل کی ملک سے باہر رہتے ہوئے پیروی کرنی ناممکن ہے، اس لیے اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ اس ملک میں آکر اپنی اپیل کی پیروی کرسکے جس کے خلاف وزیر داخلہ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جس کا فیصلہ پچھلے چند دنوں میں ہوا ہے۔ مرکزی نقطہ کہ کیا ہوم سیکرٹری کا نیشنلٹی ختم کرنے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں کا فیصلہ اس وجہ سے نہیں ہوسکا کہ شمیمہ بیگم آج اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ اپنا کیس پیش کرسکیں، اس لیے اس معاملہ کو مستقبل کیلئے موخر کردیا گیا ہے۔ اسی سے جڑے معاملہ کہ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ ملک میں واپس آکر اپنی اپیل پر کام کرسکیں، یہ فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے کہا کہ کورٹ آف اپیل نے (جس نے شمیمہ کو آنے کی اجازت دی تھی) ہوم سیکرٹری کی طرف سے دی گئی جائزہ رپورٹ کو وہ عزت نہیں دی، جس کی وہ مستحق تھی اور اس عدالت کا یہ فیصلہ کہ کیس کو درست طریقہ سے سنے جانے کا حق قومی سلامتی کی ضروریات کے حق پر برتری رکھتا ہے، غلط فیصلہ تھا، جج ریڈ نے مزید کہا کہ منصفانہ انداز میں سنے جانے کے حق کا یہ مطلب نہیں کہ اسے عوامی تحفظ اور دوسرے تمام معاملات پر فوقیت حاصل ہے۔ اخبار The Timesاپنے تجزیہ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ شمیمہ بیگم کا اپنی شہریت ختم کیے جانے کے معاملہ اور اس معاملہ نے کہ اسے ملک میں واپس آنے دیا جائے تاکہ وہ اپنی اپیل کی پیروی کرسکے، دونوں حوالوں سے معاملہ آگے کی بجائے پیچھے کی طرف چل پڑا ہے، بیگم کے وکلا جو شام کے الروج کیمپ میں بے یارومددگار پڑی ہے، جہاں اس جیسی کئی دوسری خواتین بھی موجود ہیں کے بارے میں سوچنا پڑے گا کہ آگے کس طرح بڑھا جائے، امریکہ شام میں موجود ایسے کئی کیمپوں اور جیلوں سے اپنے شہری نکال کر لے جاچکا ہے اور ان جگہوں پر13,500کے قریب قیدی موجود ہیں۔ امریکی میرین جنرل فرینک میکنزی جو امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امریکی کارروائیوں کے نگران ہیں نے پچھلے نومبر میں دنیا کو خبردار کیا تھا کہ ان لوگوں کو معاشروں میں ایڈجسٹ کرنےکیلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے، ورنہ یہ بچے جو کل کے نوجوان ہیں انتہا پسند بن جائیں گے اور اگر ہم آج اس مسئلہ کا حل تلاش نہ کرسکے تو ہم کبھی اسلامک اسٹیٹ کو ختم نہیں کرپائیں گے۔ بنگلہ دیش نے شمیمہ کے والد کی شہریت ختم کردی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں ایسی وارننگز پر توجہ نہیں دی گئی، وہ دن ختم ہوچکے ہیں، اب امریکی انتظامیہ نہ صرف خود ایسے اہم امور پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے بلکہ یورپ اور برطانیہ میں بھی دیکھ رہی ہے کہ ان حوالوں سے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ بیتھنل گرین کی اس لڑکی کی قسمت کا فیصلہ امریکی حکومت جو مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے کے ہاتھ میں سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔ شمیمہ بیگم کیس میں جب کورٹ آف اپیل کا برطانیہ میں داخلہ دینے پر رضامندی کا فیصلہ سامنے آیا تو اس کے بعد اس حوالہ سے کہ یہ خاتون ایک کمیٹڈ انتہا پسند ہے اور جو اپنے کیے پر نادم بھی نہیں اور اس کی واپسی اسلامک اسٹیٹ کو زندہ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی پر معمول سے زیادہ فیچر اور تبصرے اہم برطانوی اخبارات میں شائع ہوئے اور ایسا لگا کہ اس کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ اس فیصلہ میں بھی کسی کو سنے جانے کے حق اور ریاستی تحفظ کے حق کہ درمیان اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے ملک کے بہترین قانونی دماغوں نے دلائل دیے اور ایک متفقہ فیصلہ میں یہ ثابت ہوا کہ حقوق کی درجہ بندیاں آج بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ پرانے وقتوں میں تھیں۔ حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ کو ممکنہ مشکلات سے بچانے میں مشکل فیصلے کرے۔ چاہے کہ اس راہ میں کئی دوسرے حقوق کا خون ہی بہہ جائے۔ جنرل فرینک میکنزی کا ان مہاجر کیمپوں میں بسنے والوں پر بھرپور تبصرہ حکومتوں کے کان کھولنے کیلئے کافی ہے۔ برطانوی سیکورٹی نظام یقیناً اس اہل ہے کہ وہ مشکلات میں گھری اسTramumatisedبرطانوی بائی برتھ خاتون کو واپس اس کے مگر برطانیہ میں داخلہ دے سکے اور اسے معاشرہ کا ایک پُرامن رکن بننے میں مدد دے سکے۔