برصغیر کے عظیم شاعر مرزا غالب کی زندگی پر بننے والی فلم ’’غالب‘‘

March 09, 2021

فلم ’’غالب‘‘ کی کہانی ایشیا کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی زندگی پر 1961میں بنائی گئی تھی۔ یہ اس تاریخ کا ذکر ہے، جب دہلی میں مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہونے کو تھا۔لال قلعہ سکرات کے عالم میں تھا، دہلی کی رونق زوال پذیر تھی، جب ہر طرف ہو کا عالم تھا، دہلی مر رہی تھی اور غالب ابھر رہا تھا۔ وہ دور اس عظیم شاعر کی فنی عظمت کا عالم شباب تھا۔

بھارت میں اس موضوع پر ’’مرزا غالب‘‘ نامی فلم بن چکی تھی،جس میں بھارت بھوشن نے غالب کا کردار پلے کیا، پاکستان میں اس موضوع پر فلم ساز و ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی نے فلمانے کا فیصلہ کیا۔ فلم کی کہانی شاعر غزنوی ،مکالمے آغا شورش کاشمیری نے تحریر کیے۔ یہ یادگار تاریخی فلم 24نومبر 1961میں کراچی کے ناز اور لاہور کے ریوالی سینما میں ریلیز ہوئی۔

اپنے دور کے جنگجو ہیرو سدھیر کو غالب کے رول میں پیش کیا گیا، جو ان کی فولادی شخصیت پر پُورا نہ اترا۔ اس کردار کو ادا کرنا سدھیر کے لیے خود ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ انہیں اس دور میں فلم بین زیادہ تر ایکشن کرداروں میں دیکھنا پسند کرتے تھے، ’’باغی‘‘ جیسی ایکشن فلم کے بعد سدھیر زیادہ تر ایکشن ہیرو کے طور پر کاسٹ کیے جا رہے تھے، لیکن ہاشمی صاحب سے ان کی محبت اور دوستی کی بدولت انہیں اس کردار میں کاسٹ کیا گیا ۔

فلم میں دوسرا اہم کردار مرزا غالب کی وہ محبوبہ تھی، جو کہ پیشے کے حوالے سے ’’طوائف‘‘ تھی، لیکن غالب کے کلام کی ایسی دیوانی تھی کہ اپنے بالا خانے پر مجرے کرتے ہوئے اکثر غالب کا کلام گایا کرتی تھیں۔ بازار حُسن کی ’’چودہویں‘‘ جس کا سریلا گلہ دہلی کے بازار حسن میں مشہور تھا، ایک وقت ایسا آیا کہ چودھویں اور غالب ایک دوسرے کے لیے ردیف اور قافیہ ہو گئے۔

’’چودہویں’’ کا یہ خُوب صورت کردار ملکہ ترنم نورجہاں نے نہایت فطری انداز میں ادا کیا۔ اداکار یاسمین نے اس فلم میں مرزا غالب کی بیوی کا رول پلے کیا، جو غالب کی شطرنج ، بادہ نوشیوں، شعرو شاعری سے بے حد تنگ تھیں۔ اداکارہ شعلہ بازار حُسن کی ایک طوائف خورشید بائی کے کردار میں غالب سے عشق کرتی ہے، مگر غالب صرف چودہویں کو چاہتے تھے، جب خورشید بائی کو یہ علم ہوتا ہے، تو وہ غالب کے خلاف سازش کرتی ہے۔ سینئر اداکارہ ببو بیگم چودہویں کی ماں کے کردار میں ایک تجربہ کار نائکہ کے روپ میں جو یہ قطعی نہیں چاہتی کہ اس کی بیٹی ایک مفلس شاعر سے عشق کرے۔

منی جان نائکہ کے کردار میں ببو بیگم نے بڑی غضب ناک اداکاری کی۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں لیلٰے ،دلجیت مرزا، سلیم رضا،غریب شاہ ،جی این بٹ ،ساقی نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فلم کے ایک منظر میں ہونے والے مشاعرے میں چند مہمان اداکار بھی نظر آئے، جن میں نغمہ نگار مشیر کاظمی، معروف شاعر طفیل ہوشیار پوری ، نازش رضوی، حبیب جالب، اور فلم اسٹار ریحان بھی نظر آئے۔

فلم کی کہانی میں صرف مرزا صاحب کی زندگی کا صرف ایک رُخ پیش کیا گیا، جس سے ان کے حساس عقیدت مندوں کو سخت مایوسی ہوئی۔ غالب کی رومان پروری کی کہانی پر غالب نظر آتی ہے۔ فلم کی موسیقی میں موسیقار تصدق حسین نے غالب کی غزلوں اور کلام سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں اپنی دُھنوں میں استعمال کیں۔

’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے ‘‘نورجہاں نے اپنی آواز اور ادائیگی کے ساتھ فلم بندی میں حق ادا کر دیا تھا۔ یہ غزل فلمی شاعری میں ایک انمول شہہ پارہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

اداکاری کے شعبے میں سدھیر نے اپنے طور بڑی عمدگی سے مرزا غالب کا روپ سجایا، لیکن فلم بینوں نے انہیں اس طرح کے رومان پرور شاعر کے روپ میں قطعاً پسند نہیں کیا۔ فلم کی ہیروئن نورجہاں، چودھویں کے کردارکور نہایت احسن طریقےسے ادا کیا ہے ، جس زمانے میں نورجہاں نے اس فلم میں کام کرنے کی ہامی بھری تو وہ اداکاری سے کنارہ کش ہو چکی تھیں۔

نورجہاں نے کم عمر چودھویں کے روپ میں بڑی عمدگی کا مظاہرہ کیا، اپنے اس کردار میں بول چال ،اٹھنا بیٹھنا سبھی نورجہاں نے بڑے نیچرل انداز میں فلم بند کروایا، تاکہ وہ اس کردار کی دھوپ چھائوں کو برقرار رکھ پائے۔ اپنے اس کردار میں انہوں نے اپنی ابھرتی ہوئی عمر کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ یہ فلم دراصل نورجہاں کی فلم تھی، جس کے تمام مناظر میں وہ اپنی آواز کے اتار چڑھائو اور مٹھاس سے بےحد پسند کی گئی ۔فلم کے عکاس رشید چوہدری نے نورجہاں کو عکس بند کرنے میں اپنی اعلیٰ مہارت کا ثبوت دیا۔

ہر منظر میں ان کی تصویر کشی بے حد دل کش اور خُوب صورت رہی۔ اداکارہ یاسمین نے اپنے کردار میں جو محبت کی، وہ ان کی اداکاری سے عیاں ہوتی نظر آتی ہے، انہیں بے حد خُوب صورتی سے ایکسپوز کیا گیا۔ یاسمین نے بڑی متانت سے اپنا کردار ادا کیا۔

فلم کے پروڈیوسر ہدایت کار اس فلم میں مرزا غالب کے دور کو صحیح معنوں میں پردہ سیمیں پر پیش کرنے میں ناکام نظر آئے۔ کچھ ملبوسات بھی اس دور سے مطابقت نہ رکھ پائے، جس سے فلم کا وہ تاثر قائم نہ ہو سکا، جس کی لوگ توقع کر رہے تھے۔

مرزا غالب جن کے بارے میں نامور ادبی شخصیت پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کس قدر خوب صورت اور عمدہ بات کہی ہے۔’’مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا۔ میں بے تکلف تین نام لوں گا۔’’غالب، اردو، تاج محل‘‘

مرزا غالب کو ہمارے رائٹرز نے اسٹیج ڈرامے کے لیے اور ٹی وی پر موضوع بنایا۔ ’’غالب بندر روڈ ‘‘ پر پاکستان کے ممتاز ادیب خواجہ معین الدین کا مشہو راسٹیج ڈراما تھا، جو کراچی کے اسٹیج پر کھیلا گیا۔ اسی ڈرامے کے بعد ٹی وی کے لیے بھی نشر کیا گیا، جس میں مرزا غالب کا کردار ٹی وی کے نامور اداکار سبحانی بایونس نے کیا، غالب کے ادبی و تار یخی کردار پر معروف بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کا ڈراما سیریل مرزا غالب ، بھارتی ٹی وی کا ایک لاجواب یادگار ڈراما قرار پایا ۔

پاکستان سینما پر سدھیر وہ واحد اداکار تھے، جنہوں نے غالب کا تاریخی اور ادبی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد کسی فلم ساز کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس تاریخی ادبی شخصیت پر کوئی فلم بنائے، 70کی دھائی میں جب کلر فلموں کا مکمل آغاز ہوا تو اس وقت حسن طارق، پرویز ملک، اور ایس سلیمان، جیسے کمرشل ہدایت کار آگر اس موضوع پر کوئی فلم بناتے تو اداکار ندیم یا شاہد کو اس کردار میں پیش کرتے تو یقیناً پاکستان سینما کو ایک تاریخی فلم دیکھنے کو ملتی۔