اعتماد کا فقدان خواتین کی مالیاتی تعلیم میں رکاوٹ

March 15, 2021

پیٹرک جینکنز اور کلیر بیریٹ

تاہم مجسمہ ساز کرسٹن ویسبل کا تیار کردہ بے باک نوجوان نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے مقابل پراعتماد آنکھوں والا مجسمہ ایستادہ ہے، لیکن ابھی بھی اس مشن کو پورا کرنے کے لئےطویل سفر طے کرنا ہے۔

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے شائع ہونے والے مقالے نڈر عورت: مالیاتی خواندگی اور اسٹاک مارکیٹ کی شراکت کے مطابق جب مالیات کے شعبے کی بات آتی ہے تو خواتین کی شرکت ابھی بھی مایوس کن ہے۔

جرمنی، ہالینڈ اور امریکا کے محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم کے مقالے میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اعتماد کے فقدان کے باعث مردوں کی بہ نسبت مالیاتی شعبے میں خواندگی کے حوالے سے خواتین کی شمولیت نچلی سطح پر ایک تہائی حصہ ہے۔دیگر علوم کے مقابلے میں حقیقی خلاء ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے عالمی مالیاتی خواندگی مرکز کی بانی اور مقالے کے مصنفین میںسے ایک انماریا لوساردی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نڈر لڑکی کو ہر جگہ نڈر عورت میں تبدیل کیا جائے۔

ڈچ سینٹرل بینک کے اشتراک سے کی گئی اس تحقیق میں 1500 سے زائد مردوخواتین سے شرح سود، افراط زر اور سرمایہ کاری میں تنوع کی بنیادی باتوں کے بارے میں تین سوالات کیے گئے۔

اس مطالعے نے حالیہ تحقیق کی تصدیق کی کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں مالیاتی خواندگی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔دو یا تین آپشنز کے ساتھ ایک سے زیادہ اختیارات والے ٹیسٹ میں 60 فیصد خواتین کے مقابلے میں 75فیصد مردوں نےتینوں سوالات کے درست جوابات دیے۔

تاہم اس تحقیق نے پہلی بار اس بات کا تعین کیا ہے کہ ٹیسٹ کے پہلے ورژن میں مالیاتی خواندگی میں صنفی فرق کا بڑا حصہ مایوسی کی سطح سے نیچے تھا، جس میںایڈیشنل آپشن ’’پتہ نہیں‘‘ دیا گیا تھا، بنیادی طور پر جوابات کی ایک بڑی تعداد ’’پتہ نہیں‘ کی وجہ سے خواتین کی نصف سے بھی کم تعداد یعنی 29فیصد جبکہ مردوں کی بڑی تعداد 58 فیصد نے اسکور کیا۔

انماریا لوساردی نے کہا کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اسے نہیں معلوم، تاہم جب آپ انہیںجواب دینے پر مجبور کرتے ہیں تو وہ اکثر انہیں اس بارے میں علم ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے امیر اورغریب ممالک میں ہونے والے مطالعات میں خواتین کے درمیان مالیاتی معاملات میں اعتماد کا فقدان کا ہی پتہ چلتا ہے۔

تحقیق سے نتیجہ اخذ ہوا کہ محققین کا خیال ہے کہ صنفی مساوات کے نتائج کافی گھمبیر ہیں۔خاص طور پر سرمایہ کاری، ریٹائرمنٹ سیونگ پلانز، نجی بچت اور دولت میں اضافے جیسے طویل المدتی مالیاتی فیصلوں کے تناظر میں اعتماد کی نچلی سطح خواتین کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔اور اس کے اثرات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ عمومی طور پر مردوں کی نسبت خواتین کی عمر یںطویل ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس بحران نے ان اثرات کو کئی گنا بڑھادیا ہے۔دنیا بھر میں ایسے شواہد میں اضافہ ہورہا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران وباء کے سماجی و معاشی اثرات کی وجہ سے خواتین کی آمدنی شدید متاثر ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات میں نسل یا فائدے سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے، صنفی معاوضے میںفرق کو کم کرنے کیلئے پیشرفت تاخیر کا شکار ہورہی ہے۔

ایک برطانوی مطالعے میں ظاہر ہوا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے شعبوں میں ذیادہ ترکام کرنے والی خواتین کےملازمت کھونے کے خطرے کا ذیادہ کا امکان ہے،اور ہوسکتا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے تحت چلڈرن کیئر اور ہوم اسکولنگ کا صدمہ اٹھایا ہو۔

بریکسٹ کے خلاف مہم چلانے والی اور ایسیٹ مینجمنٹ ایگزیکٹو جینا ملر نے فنانشل ٹائمز کے منی کلینک پوڈ کاسٹ کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں گھر سے کام کرنے والی خواتین کا مالی نقصان ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب ہوگا کہ آپ بونس کا فیصلہ کیسے کریں؟ آپ فیس انکم میں حصہ ڈالنے کا فیصلہ کس طرح کریں گے؟ اس سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں، جو میرے خیال میں ناقابل یقین حد تک پریشان کن ہیں۔

عالمی یوم خواتین کے لئے فیڈیلٹی انٹرنیشنل کے خواتین اور منی کے مطالعے کے مطابق عالمی سطح پر چار خواتین میں سے ایک نے کہا کہ وبائی مرض کا ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔

سروے میں شامل 6000 خواتین میں سے نصف نے کہا کہ وہ مجموعی طور پر اپنی مالی حالت کے حوالے سے پریشان ہیں۔ گزشتہ سال 10 میںسے تین کو ذاتی آمدنی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ایک چوتھائی تعداد نے کہا کہ ان کی بچت اور سرمایہ کاری کی اہلیت محدود رہی۔

اسکاٹش وڈوو کی تازہ تحقیق کے مطابق اوسطاََ برطانیہ کی بیس سال کی عمر کی خواتین کی اسی عمر کے مرد کے مقابلے میں ریٹائرمنٹ پر پنشن کی بچت میں ایک لاکھ پاؤنڈ(ایک لاکھ 38 ہزار ڈالرز یا ایک لاکھ16 ہزار یورو) کم ہوں گے۔

اس فرق کی وجہ خواتین کی اوسطاََ کم آمدنی، پارٹ ٹائم کام کرنا اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے تنخواہ دارملازمت سے وقت نکالنا ہے۔