اعلیٰ تعلیم میں معاشیات کے نصاب میں کیا پڑھایا جانا چاہیے؟

April 18, 2021

بزنس لیڈرز کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر معاشیات (اکنامکس) کی تعلیم حاصل کرنے سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں؟اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معاشیات کے نصاب میں عمومی طور پر پالیسی معاملات پڑھائے جاتے ہیں جیسے کہ مالیاتی پالیسی، زری پالیسی اور ریگولیٹری پالیسی۔ اب ذرا اس بات پر غور کریں کہ ان میں سے کتنے طالبِ علم فارغ التحصیل ہونے کے بعد مرکزی بینکوں، پارلیمان یا ریگولیٹری اداروں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں یا انھیں وہاں کام کرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں؟

جامعات سے فارغ التحصیل طلباکی اکثریت کو مختلف کاروباری اداروں یا غیرمنافع بخش اداروں میں کام کرنے کے مواقع حاصل ہوپاتے ہیں، جہاںمعاشیات ان اداروں کی آمدنی، اخراجات اور آپریشنز پر اثرانداز ہوگی۔ اگر کچھ طلبا کو مختلف سرکاری اداروں میں کام کرنے کا موقع مل بھی جائے تو وہ وہاں جاکر کوئی ریگولیٹری پالیسیاں مرتب نہیں کریں گے، اس کے برعکس انھیں آمدنی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی اور عوام کو خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی جائےگی۔

کئی طلبا کو کھیلوں کے مختلف اداروں، خیراتی اداروں وغیرہ میں کام کرنا پڑے گا، جن کی نمو کا دارومدار بزنس سائیکل اور معاشی تبدیلیوںپر ہوتا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کے ناقد ین کا کہنا ہے کہ کالجوں میں اکنامکس کے نصاب کا پالیسی معاملات پر زور دینا ایک بےنتیجہ کوشش ہے، جس کا مستقبل کے بزنس لیڈرز کو بامعنی اور عملی تعلیم دینے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

مختلف شعبہ جات میں شمولیت اختیار کرنے والے افراد کو میکرو اکنامکس اور مائکرو اکنامکس کے کچھ بنیادی حقائق سمجھنے چاہئیں، جنھیں آنے والے کئی عشروں تک انھیں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں استعمال میں لانے کی ضرورت پیش آئے گی۔

میکرواکنامکس کی مدد سے معاشی سست روی، معاشی تیزی، اور افراطِ زر وغیرہ جیسے معاملات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کے مستقبل سے متعلق پیش گوئی کرنے کے معاملے میں ماہرینِمعاشیات کا ٹریک ریکارڈ اتنا اچھا نہیں رہا۔حالانکہ 1980ء کی کساد بازاری سے متعلق کئی ماہرینِ معاشیات نے ضرور خبردار کیا تھا، تاہم ان کا خیال تھا کہ اس کے اثرات محدود پیمانے پر ہوں گے۔ ماہرینِ معاشیات کی پیش گوئیوں کے برعکس وہ کساد بازاری انتہائی سخت ثابت ہوئی تھی۔

میکرواکنامکس کے طالب علموں کو بزنس سائیکل کے دوران مختلف شعبہ جات کی ٹائمنگ پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ مثلاً، ہاؤسنگ کنسٹرکشن کا شعبہ اُس وقت بھی تیزی دِکھاتا ہے، جب معیشت کے دیگر شعبہ جات سست روی کا شکار ہوتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی سست روی کے دور میں مرکزی بینک کا پالیسی ریٹ انتہائی کم سطح پر ہوتا ہے اور ایسے وقت میں مستحکم روزگار کے حامل افراد کم پالیسی ریٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے نئے گھر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مائکرواکنامکس، جس میں انفرادی منڈیوں کے رجحانات کو دیکھا جاتا ہے، کے طالب علموں کو یہ بات سیکھنی چاہیے کہ کسی بھی منڈی میں قلیل مدت کے بجائے طویل مدت میں لچک زیادہ دیکھی جاتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ قیمتوں میں تبدیلی کا طلب پر اثر اگلے ایک ہفتہ یا مہینہ کے دوران ظاہر ہونے کے بجائے کئی مہینوں یا سال بعد دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ، جب پیٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو بہت کم صارفین اپنی گاڑی کم چلاتے ہیں، اس کے بجائے صارفین ایسی گاڑیوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، جو کم پیٹرول پیتی ہوں۔

اس عمل کا اثر پیٹرول کی کھپت پر کئی مہینوں یا سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ پیٹرول پر چلنے والی موجودہ گاڑیوں کی تعداد کم کرنے یا متبادل ایندھن پر منتقل کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے، اس کے باعث پیٹرول کی قیمتوں کا اس کی کھپت پر فوری اثر مشکل نظر آتا ہے۔

اسی طرح، قیمتوں میں تبدیلی کا رسد پر اثر بھی ایک عرصہ بعد نظر آنا شروع ہوتا ہے۔ بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر رسد بڑھانا ممکن نہیں ہوتا، نئی پیداوار بڑھانے یا درآمد کرنے میں ایک مخصوص وقت درکار ہوتا ہے، جس کے بعد ہی قیمتوں پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے۔

کامل مسابقت (پرفیکٹ کامپی ٹیشن) پر بہت زیادہ زور کے باعث مائکرو اکنامکس کا نصاب طلبا کو مسابقت کا غلط رُخ دِکھاتا ہے، کیونکہ تھیوری سے باہر حقیقی دنیا میں کامل مسابقت کہیں نہیں ہوتی۔ تاہم کامل مسابقت کی عدم موجودگی سے یہ بات بھی اخذ نہیں کرنی چاہیے کہ ایک منڈی میں مسابقت بالکل بھی نہیں پائی جاتی۔

کئی مصنوعات کے متبادل دستیاب ہوتے ہیں۔ ایک امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق 14بڑی کارپوریشنز دنیا بھر میں 60سے زائد آٹو برانڈز کو کنٹرول کرتی ہیں اور اس فہرست میں مستقبل میں متوقع طور پر اُبھر کر سامنے آنے والی کئی آٹو کارپوریشنز شامل نہیں ہیں، جیسے ٹیسلا۔ بہ الفاظِ دیگر، مسابقت موجود ضرور ہے لیکن وہ انتہائی محدود ہوتی ہے۔

بلاشبہ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر معاشیات کے پڑھائے جانے والے نصاب میں طلبا کے سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ موجود ہے، تاہم پالیسی پر زیادہ توجہ اس کی افادیت کو ضرور کم کرتی ہے۔