سیاسی منظر نامہ، اپوزیشن ایک دوسرے کیلئے زیادہ سخت بن گئی

April 20, 2021

اسلام آباد ( طاہر خلیل ) بلاول بھٹو کے بعد جب مریم نواز نے قیادت سنبھالی تو تین مفروضے سامنے آئے تھے ، پہلا یہ کہ اب نوجوانوں نے سیاسی قیادت سنبھال لی ہے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور 90 عشرے کی تلخیاں ختم ہو جائیں گی دوسرا یہ کہ سیاسی جماعتیں ایک بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کے ذریعے عوام کو نا امیدی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور اچھے مستقبل کا پیغام دیں گی، تیسرا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا رول کم کرنے میں کامیابی ہو جائےگی ، لیکن حالات واقعات نے ثابت کر دیا کہ تینوں مفروضے غلط ثابت ہو گئے اور پاکستانی عوام پر گرانی ،بے روزگاری اور دیگر گونا گوں مسائل کا بوجھ کم کر کے انہیں خوشنما مستقبل دینے کے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے ، 90 کی دہائی کی غلطیاں نہ صرف دہرائی جارہی ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ شدت کی باہم تلخیاں بڑھ گئی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کی جارہی ہے توپوں کا رخ جو حکومت کی طرف ہونا چاہیے تھا اس کی بجائے ایک دوسرے کو زیر زبر کرنے پر مرکوز ہے ، آج کی اپوزیشن ماضی کے برعکس ایک دوسرے کیلئے زیادہ سخت اور زور آور بن گئی ، ایک دوسرے کو برداشت اور جگہ دینے کو تیار نہیں طرز تکلم سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں طرف کی انابہت مضبوط اور حوصلے شکستہ ہیں ، جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے دونوں کی سیاست اسی راستے سے چلتی رہی ہے ، ایک طرف سے کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوجائے تو دوسری جانب سے صداسنائی دیتی ہے ۔ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ سے ہی آپ کو باہر جانے کا این اوسی ملا۔۔۔ ای سی ایل سے نام نکالا گیا، جب آپ دونوں ہی ان کے مرہون منت ہیں تو پھر لڑائی کیسی ؟ جب ایک دوسرے کی لڑائی ہو تو فائدہ تیسری پارٹی کو ہوتا ہے ، حکومت ہو یا کوئی اور فائدہ اور سہولت اسے حاصل ہے،پہلی مرتبہ سینٹ میں اپوزیشن اکثریت میں آگئی اور اپنے ایجنڈے کے ذریعے حاوی ہو سکتی تھی لیکن اپوزیشن کی تقسیم نے اسے کمزور کر دیا ہے ،صورت حال کو بدلنا ہو گا، اس ضمن میں مولانا کردار ادا کر سکتے ہیں فرداً فرداً خاموشی سے ملیں اور فریقین کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کریں اہم بات یہ ہے کہ سیاسی منظرنامے میں اگر پی ڈی ایم کو بحال کر نا ہے تو اپوزیشن کو بیانیہ واضح کر نا ہو گا، پہلے بیانیہ تھا کہ نظام مسترد کرتے ہیں اور استعفے دے دیں گے