نسلوں کو برباد نہ کریں

April 22, 2021

علامہ خادم حسین رضوی مرحوم سے اختلاف کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ ان کی خطابت میں بلا کا ابلاغ تھا اور پھر ان کا ٹھیٹھ عوامی انداز، کیا دبنگ شخص تھا کہ ان کا بدترین مخالف بھی ان کی بات سنتا تو لمحہ بھر کیلئے ٹھہر جاتا اور اُن کی گفتگو کےnکھرے پن سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ پاتا۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے سعد رضوی اُن کے جانشین قرار پائے۔ فرانس کے ساتھ توہین آمیز کارٹونوں کا معاملہ بڑے رضوی صاحب کی زندگی میں ہی بھڑک چکا تھا اور یہ مطالبہ انہی کی طرف سے اٹھایا گیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو اس کے ملک واپس بھیجتے ہوئے فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں۔ اس روایتی پس منظر میں ان کے جانشین اور پیروکاران کا اپنے اس مطالبے پر بضد ہونا قابل فہم ہونا چاہئے البتہ حکومت پاکستان کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ذمہ دارانہ موقف اپناتے ہوئے دیگر مذہبی طبقات بالعموم اور اپنی اپوزیشن کو بالخصوص اعتماد میں لیتی۔ یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ ٹی ایل پی سے تحریری معاہدہ کرتے ہوئے صورتحال کی حساسیت کو کیوں سامنے نہیں رکھا گیا؟

حکومتی ذمہ داریوں پر فائز اشخاص آج یہ کہہ رہے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ پاکستان کو بڑا معاشی نقصان ہوگا اور یہ محض پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ کی حکومت تحریک لبیک کی قیادت سے یہ تحریری معاہدہ کر رہی تھی کہ ہم اس مسئلے کو نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ میں بحث کیلئے کریں گے بلکہ فرانسیسی سفیر کو نکالیں گے، اس معاہدے پر آپ کے وزراء نے باقاعدہ دستخط کئے تھے، اس وقت آپ کو اس کے مضمرات کا ادراک کیوں نہ ہوا؟ حکومتی عہدنامہ کوئی مذاق نہیں ہوتا جس سے آپ جب چاہیں پھر یا مکر جائیں۔ ٹی ایل پی نے بھی احتجاج کا جو اسلوب اپنایا، کوئی بھی اس کی تائید نہیں کر سکتا، نشری تقریر میں حکومتی ترجمان کی طرف سے بتایا گیا کہ اِس احتجاج کے دوران چار پولیس والے شہید ہوئے، آٹھ سو کے قریب زخمی ہوئے، تیس کے قریب گاڑیاں جلائی گئیں۔ ایسے پُرتشدد احتجاج کو کوئی بھی شخص کیسے قبول کر سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ان نقصانات کے بعد کالعدم تنظیم کے خلاف عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ یہاں اِس سے پہلے بھی سیاسی احتجاجی تحریکیں چلتی رہی ہیں اور اب بھی چل رہی ہیں، ان میں تشدد سے ہر ممکن حد تک گریز کیا جاتا ہے مگر یہاں افسوس کہ کسی فریق نے بھی اصول یا اخلاقی ضابطے کا خیال نہیں کیا۔ مابعد حکومت یا پولیس کی طرف سے تحریک لبیک کے احتجاجی کارکنان کے خلاف جو رویہ اپنایا گیا وہ بھی قابلِ ستائش نہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے، میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ توہین کے ملزموں کو ہماری طرح سزائیں دیں، میں ستاون اسلامی ممالک کا بلاک بنائوں گا، میں ان سب کو اس مسئلے پر اکٹھا کروں گا اور پھر یورپ کے بالمقابل کھڑا کروں گا، ایسے دعوے کرنے سے پہلے اپنی حیثیت کا احساس و ادراک کر لینا چاہئے۔ آج اقوام کی حیثیت یا ان کا وزن ان کی معاشی طاقت سے ماپا جاتا ہے جو خیر سے تباہ حال ہے، قومی یکجہتی پارہ پارہ ہے۔ حالت یہ ہے کہ ملک میں ہونے والی اس حالیہ پُرتشدد تباہی کے باوجود آپ نے اپنی اپوزیشن کو اپنا ہم آواز نہیں بنایا۔ یورپ کی تہذیبی اقدار پر آپ نے کون سی کتاب یا ریسرچ آرٹیکل تحریر کر رکھا ہے؟ اِس لئے ایسے دعوئوں سے گریز کرنا چاہئے۔ یہاں ہمارے اپنے بہت سے پاکستانی مل جائیں گے جو ساری زندگی یہاں گزار دیتے ہیں لیکن انہیں اپنی تہذیبی اقدار یا تاریخ کا کچھ علم نہیں ہوتا بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے سماج کو عالمی برادری کے معیار پر دیکھنا ہے تو پھر یہاں طاقت کے جو اصل مراکز ہیں، ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وقتی و ہنگامی مفادات سے اوپر اٹھیں، اپنی نئی نسلوں کو یوں برباد کئے رکھنے کا وتیرہ یا طرز عمل چھوڑ دیں۔ جذباتیت کا انجام اپنی نسلوں کو سوائے کھائیوں میں گرانے کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ قیادت کا کام قوم کی شعوری و فکری رہنمائی ہوتا ہے نہ کہ بھیڑ چال اور وقتی مفادات کیلئے قومی بربادی کا سامان کرنا۔ مشن سب کا ایک ہے بس طریق کار کا تھوڑا سا فرق ہے، بس کر دیں بھائی بس کر دیں، اپنی نسلوں کے ساتھ کھلواڑ اب بس کر دیں، ان نونہالوں کے تعلیمی نصاب کو جدید عالمگیر انسانی تقاضوں کی مطابقت میں بدلیں اندھی جذباتیت کی جگہ سوچ بچار آزادی اظہار اور شعور کو آنے دیں۔ اے میرے ملک کے اصل حکمرانو! اب اس قوم کی حالت پر رحم فرمائواتنی تباہی کے بعد تو دشمن بھی ترس کھا لیتے ہیں ان کا ضمیر بھی زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے کسک لگانے لگتا ہے خدا کیلئے آپ مزید بربادیوں سے ہاتھ کھینچ لیں قوم کو انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے فیضان کا کچھ تو ادراک ہونے دیں۔