کشمیر کا حل: خطے میں امن قائم کرسکتا ہے

April 29, 2021

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدہ حالات کو معمول پر لانے کیلے بیک ڈور ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے ایک امریکن ادارے کے تعاون سے یو اے ای کی حکومت سے مل کر بات چیت چل رہی ہے دوبئی میں پہلا دوسرا دور بھی چل چکا ہے ہندوستان نے ہمیشہ بیک ڈور ڈپلومیسی کاراستہ اختیار کر کے اپنے آپ کو عالمی دباو سے نکالنے کےلیے استعمال کیا لیکن پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ بات چیت میں جموں و کشمیر کے مسئلہ کے حل کو اولیت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ اس تنازعہ کو حل کیئے بغیر دہلی کے ساتھ تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ خطہ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

جموں و کشمیر کے عوام مسلہ کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے پر امن طور پر حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ خطہ میں امن و استحکام کیلئے اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کا سودا کر لیں۔تنازعہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے اور وہ حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں میں بھی تنازعہ کا یہی حل تجویز کیا گیا ہے اور خود جموں و کشمیر کے عوام بھی گزشتہ سات دہائیوں سے اسی اصول کے تحت اپنے مستقبل کا حق مانگ رہے ہیں اگر بھارت کا یہ خیال ہے کہ وہ اسٹیٹس کو، کو برقرار رکھتے ہوئے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھائے تو یہ اس کی خام خیالی ہے اس وقت جو بیک ڈور ڈپلومیسی چل رہی ہے اس میں کشمیری قیارت اور عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہو رہا ہے ماضی میں کئی مرتبہ اس طرح کی کوشش ہو چکی لیکن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ ان مزاکرات میں اہم فریق کشمیریوں کو باہر رکھ کر بات چیت ہوتی رہی جموں و کشمیر کے عوام اسٹیٹس کو کے لیےنہیں بلکہ آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں اگر انہوں نے اسٹیٹس کو کو قبول کرنا ہوتا تو وہ سات لاکھ انسانوں کی قربانیاں کیوں دیتے۔

بھارت 5 اگست 2019 کے اپنے غیر قانونی اقدام سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے اور پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کسی اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے میں کیسے دلچسپی رکھ سکتے ہیں ہندوستانی تھنک ٹینک نے اپنی کمزور پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے مزاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی کا نام نہاد راستہ اختیار کی اور اپنا کام نکال کر پھر آنکھیں دکھانا شروع کردیتا ہے بھارت نہ صرف پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے بلکہ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ اچھے روابط نہیں ہیں بھارت کو جمہوری سیکولر ملک تصور کرنا بھی درست نہیں کیوں کہ بھارت میں کوئی بھی اقلیت مسلم سکھ عیسائی پارسی منجوسی محفوظ نہیں رہے۔

یہ ملک کانگریسی دور اقتدار بی جی پی دور میں حقیقی طور پر کبھی بھی جمہوری سیکولر ملک نہیں تھا اب وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں قائم حکومت ہندو توا کے نظریہ کے تحت خطہ میں اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے اور پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو اس بات کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بھارتی ریاست مقبوضہ کشمیر میں اپنے قوانین کا کلی طور پر ناجائز استعمال کر رہی بھارت مقبوضہ کشمیر میں کس قانون کو درست اور کس قانون کو غلط استعمال کر رہا ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو مقبوضہ ریاست میں کسی قسم کا قانون نافذ کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ نہ تو کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی بھارت کو کشمیر میں اپنی عملداری قائم کرنے یا قائم رکھنے کا کوئی اختیار ہےغیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کا ایکٹ، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین نافذ کرنے کا کوئی حق و اختیار نہیں ہےہندوستان نے ہمیشہ کشمیر میں ایسے قوانین بناے جس سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حقوق پامال ہوں لیکن ریاست کی عوام کب تک ایسے برداشت کرتے ہندوستان گزشتہ تہترسالوں سے کشمیریوں کو جبری غلام بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے لیکن ہندوستان کشمیریوں کے دلوں پر حکومت نہ کر سکا اس وقت کرونا وائرس کی وبا سے پوری دینا لپیٹ میں ہے۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر جانی نقصانات ہو رہے ہیں بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں قید ہزاروں کشمیری قیدیوں کی جانوں کو درپیش خطرات کے پیش نظر انکی فوری رہائی کیا جائے بھارت میں کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال سخت تشویش ناک ہے ان میں ہزاروں کشمیریوں کی زندگی کے بارے میں آزاد کشمیر میں تشویش پائی جاتی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے بھارت کی مختلف جیلوں میں بے گناہ بند ہیں اور ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد زیادہ ہونے اور صحت و صفائی، خوراک و پوشاک کی ناگفتہ بہ صورتحال کی وجہ سے قیدیوں میں کرونا پھیلنے کے سخت خطرات موجود ہیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جے کے ایل ایف کے چیئرمین محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بٹ، ایاز اکبر، ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی سمیت ہزاروں قیدیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کر کے ان کی زندگیوں کو محفوظ کیا جائے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کی نظر بندی ختم کر کے انہیں آزاد کیاجائے اور دہلی کی تہاڑ جیل میں قید آسیہ اندرابی کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت پر بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے بھارت میں کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام بھارت میں مہلک کرونا وائرس سے لڑنے والے عوام خاص طور پر ان بھارتی شہریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو دیہاتوں اور قصبوں میں بے بسی اور بے کسی کے عالم میں اس موذی بیماری کا مقابلہ کر رہے ہیں جموں و کشمیر کے عوام خواہ وہ مقبوضہ کشمیر میں آباد ہیں یا آزاد جموں و کشمیر میں رہ رہے ہیں۔

انسانیت، انسانی ہمدردی اور اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور وہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں ستر سال سے گہرے زخم اٹھانے کے باوجود بھارت میں پیدا ہونے والی تباہی و بربادی پر اسی طرح غم زدہ ہیں جس طرح خود بھارت کے شہری کیونکہ یہی انسانیت کا تقاضا ہےآزادکشمیر میں بھی کرونا وبا کی صورت حال خطرناک ہورہی ہے اس وباء کے پھیلاو کا سبب عوام کی بے احتیاطی ہے لوگ کرونا کو مذاق سمجھتے ہیں۔