جنوبی ایشیا میں بڑا بریک تھرو؟

May 09, 2021

کیا جنوبی ایشیا میں کوئی بڑا بریک تھرو ہونے جا رہا ہے؟پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر آنے والے ہیں؟اِس ضمن میں گردش کرنے والی خبروں سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ فوری تو نہیں، البتہ مستقبل قریب میں ضرور کوئی بڑی پیش رفت ہونے جا رہی ہے۔اِس سلسلے میں آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کی اُس میٹنگ پر تبصرے، تجزیے جاری ہیں، جو اُنہوں نے اپریل کے آخری دنوں میں صحافیوں کے ایک بڑے گروپ سے کی۔ اس ملاقات میں علاقائی سیکیوریٹی، سیاسی، اندورنی معاملات اور میڈیا کے کردار پر بات ہوئی، لیکن سب سے زیادہ فوکس اور دل چسپی کا باعث کشمیر کا ایشو رہا۔ اِسی تناظر میں پاک، بھارت تعلقات پر بھی کُھل کر بات ہوئی۔

اِس سلسلے میں ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ پاکستان اور بھارت کے انٹیلی جینس چیفس اور سیکیوریٹی مشیروں کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں، جن میں بھارت کی طرف سے اجیت دوول اور پاکستان کی طرف سے ڈی جی، آئی ایس آئی، جنرل فیض حمید شرکت کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں متحدہ عرب امارات کی ثالثی کا ذکر بھی عام ہے( اور وہ اس کی تصدیق بھی کرچُکا ہے)۔ بتایا جا رہا ہے کہ اب کی بار بھارت کی طرف سے بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور پاکستان نے اس کا مثبت جواب دیا، جس پر بات آگے بڑھی۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے سیکیوریٹی امور کی پیچیدگیاں دُور کی جائیں گی، پھر دوسرے شعبہ جات،تجارت اور سیاسی معاملات آگے بڑھائے جائیں گے۔جنوبی ایشیا میں امن کی طرف پیش رفت ہو، پاک،بھارت تعلقات قائم ہوں، تجارت اور دوسرے شعبوں میں تعاون ہو، عوامی رابطے بحال ہوں، تو بھلا علاقے اور دنیا کے لیے اِس سے بڑی خبر کیا ہوسکتی ہے؟ایک سو پینتالیس کروڑ لوگوں کے لیے بھی یہ اطلاعات خوش کُن ہیں، جن کی اِس تنائو کے سائے میں چار نسلیں پروان چڑھ چُکی ہیں۔

تاہم، سوال یہ بھی ہے کہ آخر اب ایسا کیا ہوا، جو پاکستان کو بھارت سے تعلقات معمول کے مطابق کرلینے چاہئیں؟ غور کیا جائے، تو اس کے پس منظر میں وہی سوچ کار فرما نظر آتی ہے کہ ’’ہمیں پہلے اپنا گھردرست کرنا چاہیے، پھر دوسرے ممالک سے تعلقات کی نوعیت طے کی جائے۔‘‘ مُلک کو نارمل کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ پڑوسیوں، بشمول بھارت سے تعلقات معمول پر لائے جائیں۔ اس سے ڈوبتی معیشت کو سنبھالا ملے گا اور قرضوں کے چکر سے بھی جان چُھوٹ سکے گی۔

سوال یہ بھی اہم ہے کہ اگر امن سے رہنا ہماری ضرورت ہے، تو کیا بھارت کی بھی ایسی ہی خواہش ہے؟ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس خواہش کا اظہار دوسری طرف ہی سے ہوا، کیوں کہ اس کی ایک وجہ بھارت، چین حالیہ سرحدی تنازعات ہیں، جنہوں نے فوجی جھڑپوں کی شکل اختیار کرلی۔بھارت نہیں چاہتا کہ وہ بیک وقت دو سرحدیں گرم رکھے۔پھر وہاں یہ سوچ بھی پنپ رہی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں چین ان کا بڑا حریف ہے۔اس ضمن میں حالیہ جنوب مشرقی ایشیا کے چار ممالک کے فورم کی فعالیت بھی سامنے رکھی جائے، جس میں بھارت کے ساتھ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا ہیں اور اُن کا مقصد انڈوپیسفک میں چین کا گھیرائو کرنا ہے۔

ان معاملات میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں۔ اِس لیے بھی کہ پاکستان کا اس خطّے سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں،ایسے میں ہماری توجّہ کا مرکز جنوبی ایشیا ہی ہونا چاہیے اور اس میں بھارت نہ صرف ایک بڑا مُلک ہے، بلکہ اس کی مضبوط معیشت اور بڑی مارکیٹ ہمارے مال کے لیے پُرکشش ہے۔پھر یہ بھی کہا گیا کہ ماضی دفن کرنے کا وقت آگیا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان ماضی بہت تلخ ہے، چار جنگیں ہوچکی ہیں۔مُلک دولخت ہوا، لیکن اس میں ہوا کے کچھ ٹھنڈے جھونکے بھی ہیں، جیسے تعلقات بہتر کرنے کی سنجیدہ کوششیں۔ پاکستان میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ سے قبل دونوں ممالک کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ موجود تھی۔

ہر ہفتے سینما گھروں میں بھارتی فلمز لگتیں، جو سلور اور گولڈن جوبلی مناتیں۔انڈین گانے ذوق و شوق سے سُنے جاتے اور ریڈیو پاکستان اُنہیں نشر کرتا۔لیکن1965 ء کی جنگ کے بعد یہ سب بند ہوگیا۔ اعلانِ تاشقند میں صدر جنرل ایوب اور بھارتی وزیرِ اعظم، لال بہادر شاستری نے براہِ راست طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ کیا۔ذوالفقار علی بھٹّو وزیرِ خارجہ تھے، جو بعدازاں اس معاہدے کے بڑے مخالف کے طور پر سامنے آئے اور بلّی کو تھیلے سے باہر نکالنے کی بات کرتے رہے، یعنی تاشقند کے راز افشا کرنے کی دھمکی دیتے رہے۔

اس معاہدے کے تحت جہاں فوجیں واپس ہوئیں، وہیں کشمیر کے حل کی بھی باتیں کی گئیں، لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ سوویت یونین نے، جو پاکستان کا کٹّر مخالف اور بھارت کا پکّا دوست تھا، پہلی بار ان دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا، لیکن چار سال بعد ہی1971 ء میں دونوں کے بیچ پھر جنگ چِھڑ گئی، جب پاکستان میں الیکشن کے بعد جمہوریت بحال ہونے جا رہی تھی۔بنگلا دیش کا قیام اور پاک، بھارت دشمنی کی اصل اور خوف ناک شروعات وہیں سے ہوئی۔

اس جنگ نے وہ زخم لگائے کہ جو پاکستان کو آج تک درد دیتے آ رہے ہیں۔تعلقات بحالی کی ایک کوشش سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں کرکٹ ڈپلومیسی کے نام سے ہوئی، لیکن پھر پہلی افغان وار شروع ہوگئی۔ پاکستان پر افغان مہاجرین کا بوجھ پڑا، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔اسمگلنگ کو قانونی حیثیت مل گئی، پھر دہشت گردی نے اس علاقے میں جڑیں پکڑ لیں، جو اب تناور درخت بن چُکی ہیں۔امن کے لیے فوجی آپریشنز کیے گئے، جو اب بھی جاری ہیں۔اِس جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان اُٹھایا۔ہزاروں جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے اور قومی معیشت کو اربوں کا نقصان ہوا۔نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے اچھی خبریں لایا، جب بھارتی وزیرِ اعظم، واجپائی بس کے ذریعے لاہور پہنچے۔

مینارِ پاکستان جا کر پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور اعلیٰ قیادت کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں’’ اعلانِ لاہور‘‘ سامنے آیا، لیکن پھر کارگل جنگ نے سب کچھ ختم کردیا۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک مرتبہ پھر پاک،بھارت تعلقات کو پٹری پر لانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ باہمی رضا مندی سے مسئلۂ کشمیر کے حل کا ایک فارمولا بھی تیار کرلیا گیا، جس کی تفصیلات خورشید قصوری کی کتاب میں موجود ہیں۔ مشرف بھی نوازشریف کی طرح یہی چاہتے تھے کہ کم ازکم تجارتی تعلقات قائم کرکے معیشت بہتر بنانی چاہیے۔نواز شریف تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنے، تو اُن کی انتخابی مہم میں معیشت کی بہتری کے ساتھ بھارت سے تعلقات بہتر کرنا بھی شامل تھا۔

مودی، نواز ملاقاتیں ہوئیں اور اس کا کلائمکس یہ ہوا کہ نریندر مودی اُن کی ذاتی تقریب میں شرکت کے لیے جاتی عمرہ پہنچ گئے۔لیکن یہ دورہ نواز شریف کو بہت منہگا پڑا۔ اُنہیں’’ مودی کا جو یار ہے، مُلک کا غدّار ہے‘‘ جیسے طعنے دیے گئے۔خاص طور پر عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں اس معاملے کو بہت اچھالا۔بعدازاں، پلواما اور دیگر معاملات کی وجہ سے دونوں ممالک میں ایک بار پھر تعلقات کشیدہ ہوگئے، بلکہ مخالفت میں مزید شدت آگئی۔

اب بتایا جا رہا ہے کہ فوجی معاملات طے ہونے کے بعد دونوں طرف کی سیاسی قیادت تنازعات کے حل کی ذمّے داری لے گی۔ اس معاملے پر فوج اور سیاسی قیادت کے ایک پیج پر ہونے کابھی بتایا جاتا ہے۔ دیکھا جائے، تو یہی سب سے مشکل مرحلہ ہوگا۔ حکومتوں کی ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد دونوں ممالک کے درمیان امن کی خواہش مند ہے۔عوام معمول کے تعلقات اور روابط چاہتے ہیں، جیسے دیگر ممالک کے درمیان ہوتے ہیں۔

اس کے لیے دونوں حکومتوں کا کہنا ہے کہ ’’ماحول ساز گار بنانا ہوگا۔‘‘ سازگار ماحول کون بنائے گا؟ اور اگر ماحول ناسازگار ہے، تو کیا یہ عام شہریوں نے کیا ہے؟یا پھر دونوں حکومتوں کی پالیسی کا حصّہ رہا ہے؟ اِس مرتبہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بھارت کی خواہش پر ہو رہی ہے۔بھارت نے بات چیت سے تو کبھی بھی انکار نہیں کیا تھا، لیکن اس کا کہنا تھا کہ پہلے اس’’ دہشت گردی‘‘ کو ختم کرنا ہوگا، جس کے تانے بانے پاکستان سے ملنے کے الزمات لگاتا ہے۔جواباً پاکستان کشمیر کے حل کو اوّلیت دیتا ہے۔ذرائع کے مطابق، اِس مرتبہ رویّوں میں لچک آئی ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ بھارت آرٹیکل235 کے تحت کشمیر میں دوسرے صوبوں سے شہریوں کو بسانے کی پالیسی تَرک کردے تاکہ مسلمانوں کی عددی اکثریت برقرار رہے۔

اس سے غالباً سیاسی طور پر مسلم صوبائی حکومت بنانا ممکن ہوگا، کیوں کہ جب آرٹیکل 370 منسوخ نہیں ہوا تھا، اُس وقت سے آج تک مقبوضہ کشمیر میں ہمیشہ مسلمان ہی وزیرِ اعلیٰ رہا۔اگر بھارت یہ بات مان لیتا ہے، جو ممکن بھی ہے، کیوں کہ اُس نے 2019 ء میں کشمیر میں جو آئینی تبدیلیاں کیں، ان کو اس سے معمولی سا فرق پڑے گا۔ اِس سارے معاملے میں اقوامِ متحدہ کی رائے شماری کی قرار دادیں کہاں فِٹ ہوں گی؟ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ مودی حکومت کو یہاں کچھ بھی کہا جائے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُن کے پاس اپنے عوام کا بھاری مینڈیٹ ہے، جسے فی الحال کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔

عمران خان نے انتخابات میں کام یابی کے لیے’’ مودی کا جو یار ہے، وہ مُلک کا غدّار ہے‘‘ جیسے نعرے کو بھی ہوا دی۔ وہ اور اُن کے ترجمان مسلسل یہی ڈھول پیٹتے رہے اور اب بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں یوٹرن لیتے ہوئے بھارت کو بات چیت کی پیش کش کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ ایک قدم بڑھائیں گے، تو ہم دو قدم۔‘‘لیکن دوسری طرف سے کوئی ریسپانس نہیں آیا۔پھر پلواما حملے، فضائی جھڑپ اور کشمیر کے لاک ڈائون کے بعد معاملات بگڑ گئے،جس کے دوران عمران خان نے مودی سے متعلق سخت بیانات دیے۔ یہاں تک کہ مودی کو ہٹلر کہا۔شاید اسی لیے بھارت، صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش مسترد کرتا رہا۔

اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سفارت کاری کس قدر حسّاس معاملہ ہے۔ گولی کا زخم تو شاید بَھر جائے، لیکن بیانات تاریخ بن جاتے ہیں۔عمران خان کہا کرتے تھے کہ مودی اُن کا فون تک نہیں اُٹھاتے، لیکن پھر بھی دونوں ممالک کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے درمیان ملاقات ہوئی اور سرحد پُرسکون ہوئی۔شاید اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ جنگ میں بھی ممالک کے درمیان بات چیت جاری رہتی ہے۔ کورونا کی تباہ کاریوں نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری میں کردار ادا کیا ہے ۔مودی نے عمران خان کے کورونا سے متاثر ہونے پر اُن کی خیریت معلوم کی۔ پھر یومِ پاکستان پر بھی اُن کا تہنیتی پیغام آیا۔عمران خان نے بھی خوش گوار سا جواب دیا۔

یہ طویل عرصے بعد سربراہ سطح پر کوئی رابطہ تھا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک روز میں اچھے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی جادو کی چھڑی انہیں معمول پر لاسکتی ہے۔اس کے لیے اہم ترین بات عوامی مینڈیٹ ہے۔ ایک ایسی حکومت جو اِس معاملے پر عوام کا اعتماد حاصل کرے۔ویسے تو مُلک کی تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں بھارت سے پُرامن تعلقات کے حق میں ہیں،لیکن عوام کو گزشتہ برسوں میں جو بتایا، سمجھایا گیا، اُسے اُن کے دل ودماغ سے باآسانی نہیں مِٹایا جاسکتا۔

سب سے پہلے تو کشمیر کا معاملہ ہے۔ کشمیری اس تنازعے کے بنیادی فریق ہیں، لہٰذا اُنہیں بتانا ضروری ہے کہ کس نوعیت کا معاہدہ ہونے جا رہا ہے اور اُس کے اُن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔یہ بھی کہ پاکستان کے مؤقف میں لچک کس طرح اُن کے فائدے میں ہے؟اُنہیں سمجھانا ہوگا کہ معاشی طور پر مضبوط پاکستان ہی کشمیریوں کا صحیح معنوں میں ساتھ دے سکتا ہے۔قرضوں پر چلنے والا مُلک، جو ویکسین خریدنے کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو، کسی کے کیا کام آسکتا ہے۔گو کہ یہ بات بہت تکلیف دہ ہے، لیکن اسے ہضم کرنا ضروری ہے۔ پاک، بھارت تجارت،عوامی رابطے اور ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کا خاتمہ ضروری ہے۔

شاید اِس معاملے میں نوجوان ذہن زیادہ بہتر کردار ادا کرسکیں، جو دونوں ممالک میں اکثریت میں ہیں۔ چین جیسا دوست بھی ہمیں بار بار سمجھاتا رہا ہے کہ ہماری طرف دیکھو، مختلف ممالک سے ہمارے بھی تنازعات ہیں، لیکن ہم اُن سے تجارت سے لے کر ماحولیات تک، ہر معاملے پر بات چیت کر رہے ہیں۔تاہم، اس طرح کے اقدام کے لیے عزم، حوصلے، سفارتی تدبّر اور عوامی اعتماد کی ضروت ہوگی۔