پختونخوا: کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم پر اختلافات

May 06, 2021

تحریک انصاف کے دوناراض اراکینسمیت چار وزرا کو صوبائی کابینہ میں شامل کرنے انہیں ایڈجسٹ کرنے میں اب وزارتوںکی تقسیم کا معاملہ آڑے آگیا ہے،کیونکہ کوئی بھی موجود ہ وزیر نئے آنے والوں کے لئے من پسند وزارت چھوڑنے کوتیار نہیں ،سیاسی حلقوں کے مطابق کابینہ میںوزارتوں کی تقسیم پر اختلافات کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے اور نئے وزرا کے حلف کے دو ہفتے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کے معاملات طے ہورہے ہیں نہ ہی نئے وزرا کے محکموں کا اعلان ہوسکا ہے اور معاملہ تاحال کھٹائی میںپڑا ہے۔

وزیراعلیکی جانب سے پارٹی اختلافات کے باعث پارٹی سے نکالےگئے دوسابق وزرا اور شکیل خان سمیت دونئے وزروفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور کے بھائی فیصل امین گنڈہ پور اور فضل شکور کو طویل مشاورت کے بعد 14اپریل کو صوبائی کابینہ میںشامل کیا گیا ہے مگر ابھی تک ان کی وزارتوں کااعلان نہیں کیا گیا۔

عاطف خان کے پاس اس سے قبل کھیل و ثقافت جبکہ شکیل خان کے پاس محکمہ مال کی وزارت تھی تاہم کابینہ میں دوبارہ آنے کے بعد عاطف خان کووزارت صحت دینے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اس پر وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا براجمان ہیں چونکہ اس وقت صوبے میں کورونا وبا کا معاملہ چل رہا ہے جس میں اربوں کے فنڈز کا استعمال ہورہا ہے جس کا کوئی آڈٹ بھی نہیں ہورہا ہے جبکہ اس فنڈز کے تحت کروڑوں روپے کی خریداری پہلے ہی خیبرپختونخوا پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھاری کے قوانین سے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔

اس لئے تیمور جھگڑا نے خزانہ اور صحت جیسے دو بھاری وزارتیں اپنے پاس رکھے ہوئے ہیںتاحال ان میں کسی ایک کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیںاسی طرح کابینہ میں نئے شامل ہونےوالا فیصل امینگنڈہ پور محکمہ زراعت کے خواہشمندہیںمگر وہ سوات کے محب اللہ کے پاس ہے اور چونکہ سوات زرعی یونیورسٹی کا منصوبہ زیر غورہےا س لئے وہ زراعت چھوڑنے کےلئے تیار نہیںجبکہ فیصلہ امین گنڈہ پور ایکسائز لینے پرراضی نہیں کیونکہ ڈی آئی خان میں بھی زرعی یونیورسٹی کے منصوبہ تیار ہے،انہی اختلافات کے باعث کہ کابینہ میں شامل ہونے والے نئے وزرائ کے محکموں کا معاملہ ابھی طے نہیںہوا اور وہ بدستور وزاروں کے انتظار میں ہیں۔

پارٹی کے بعض اراکینکا موقف ہے کہ دو دواہم وزارتوں پر براجمان وزرا کو ایک وزارت چھوڑ نی چائیے تاکہ نئے آنے والوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا جاسکے،دیکھنا یہ طویل اختلافات کے بعد کابینہ واپس آنے والے وزرا سمیت دیگر بے محکموں وزرا کا معاملہ حل کیاجاتا کہ یہ معاملہ مذیدطوالت اختیار رکرتا ہے آنےوالے چند دنوں میں یہ بات واضح ہوجائےگی تاہم ادھر رمضان کے بابرکت مہینے چوتھا اور آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے مگر مہنگائی کا جن بوتل میں بند کیاجاسکا نہ ہی تمام تراقدامات کے باوجود کورونا وبا کو قابو کیا جاسکے اوپرسے بدقسمتی سے آئے روز عوام کورونا بچائو ایس اوپیز پر عمل درآمد کا درس دینے اور کاروبار بند کرنے کے منصوبے تیار کرنے والے صوبائی وزیر صحت نے مقامی نجی ہوٹل ہیں اپنے قریبی دوستوں کےساتھ افطار ڈنرمیں شرکت کرکے اپنے ہی اعلان کردہ کورونا ایس او پیز کو پائوں تلے روند ڈالا جس نے عوام کےغم و غصے میں مذید اضافہ کیا۔

ماضی کی طرح اس سال بھی رمضان کے بابرکت مہینے سے قبل مہنگائی کوکنٹرول کرنے اور عوام کو روزمرہ کی اشیا سستے نرخوں پر فراہم کرنے کےلئے نہ صرف یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو اربوں کی سبسڈی دی گئی بلکہ انصاف سستے بازاروں کے انعقاد کے علاوہ انتظامی افسران سے محض خانہ پوری کے لئے آئے روز بازاروں میں چھاپے بھی دلوائے گئے مگر اس کےباوجود یوٹیلٹی سٹورز کے باہر چینی کی ایک پیکٹ اور سستے آٹے کےلئے سارا سارا دن لمبی لمبی قطاروں دے یہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ماضی کی طرح اس مرتبہ میں ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں ایک بار پھر ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز جیت گئے جبکہ حکمران اور غریب عوام ہارچکے ہیں۔

یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو اربوںکی سبسڈی دینے کے باجود ان سٹوروں سے چینی ،آٹا اور اورگھی غائب ہونے کی شکایات زبان زدعام ہیں ،انصاف سستے بازار بھی عوام کی مشکلات کم کرنے میں معاون ثابت نہ ہوسکے جبکہ ناجائز منافع خوروں اور گرانفروشوں کے خلاف کاروائی کی ذمہ دار انتظامیہ کے چھاپے محض سرکاری خانہ پوری سے زیادہ نہیں کیونکہ ان کے چھاپوں کے باوجود رمضانمیں گوشت ،مرغی اور فروٹ وغیرہ کی قیمتیں کم نہ کی جاسکی اور ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی من مانی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کی وجہ سے رمضان کے اس بابرکت مہینے میں بھی مہنگائی کا جن بوتل سے باہر ہیں۔

جس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور دوسری وجہ موثر قانون یا سز ا کا نہ ہونا ہے انتظامیہ مہنگائی کے خلاف چھاپوں کے دوران درجنوں دکانداروں کو گرفتار کرنے کادعوی کرتی مگر ان کی گرفتاری سے اشیا کی قیمتوں پرکوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ گرفتار دوکاندار یا تومک مکا کے زرئے گرفتاری سے بچ جاتے ہیںیا کمزور قوانین کے باعث معمولی جرمانے بھر نے کے بعد رہائی پاتے ہیں ،اس لئے حکومت کو ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ایسے سخت اور موثر قوانین لانے چائیے جس کے زریئے انہیںسخت سزائوں کے علاوہ ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کئے جاسکے ۔

ادھر ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختونخو امیں بھی کورونا وبا کے لئے جاری ایس او پیز پر موثر انداز میں عمل درآمد نہ ہونے کے باعث وائرس کے وار بدستور جاری ہیں ،اور حکومت نے کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے کےلئے این سی او سی کے فیصلوں کی روشنی میں صوبے بھر میں8مئ دوہفتوں کے لئے مکمل لاک ڈائون کا اعلان کرکے ہرقسم کی تجارتی اور سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے اور عوام کو عید کے دنوں میں گھر میں ہی رہنے کامشورہ دیا جارہا ہے۔

ان سطور کی تحریر کرنے تک صوبائی محکمہ صحت کی جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے مزید 40 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جس کے بعد صوبے میں کورونا سے جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 3ہزار350ہوگئی،جن میں صرف صوبائی دارلحکومت پشاور میں کورونا وائرس سے جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 1689 ہوگئی ہے ،اسی طرح خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے مزید 864 افراد متاثر ہوئے ہیں جس کے بعد صوبے میںکورونا کیسز کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 19 ہزار 277ہوگئی ہے۔