عید کی سچی خوشی

May 08, 2021

مومنہ حنیف

عبدالہادی، حامد، ’’جلدی آؤ، نماز کا وقت نکلا جارہا ہے‘‘۔دونوں بیک وقت بولے، ’’جی بھائی جان آرہے ہیں ،بس ٹوپی لے رہے ہیں‘‘۔پھر تینوں بھائی نماز عصر کے لیے مسجد کی جانب روانہ ہوئے۔نمازکے اختتام کے بعد امام صاحب نےعیدالفطر کے حوالے سے مختصر سا بیان فرمایا۔ انہوں نے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان بھائیواور ننھے نونہالو، رمضان المبارک کا رحمتوں کا مہینہ رخصت ہورہا ہے اور چند روز بعد ہم عید الفطر کی خوشیاں منانے میں مصروف ہوجائیں گے‘‘۔

’’دوستوں، لفظ عید کے معنی ہیں ’’خوشیاں منانا‘‘جب کہ’’ فطر‘‘ کا مطلب ہے، ’’کھولنا‘‘۔ ’’جب روزہ دار ماہ رمضان کے پورے مہینے کچھ کھائے ، پیے بغیر عبادت کرتے ہیں، پنج وقتہ نماز اور قرآن شریف کی تلاوت کے علاوہ نماز تراویح کی ادائیگی کرتے ہیں، بعض لوگ دس روز تک دنیا سے کٹ کر اعتکاف میں بیٹھتے ہیں تو رب کائنات، ماہ صیام کے اختتام پر اپنے بندوں کو عید سعید کی خوشیوں کی صورت میں انعام عطا فرماتے ہیں‘‘۔

اس روز امیر غریب سب کے لیے خوشیوں کے دروازے کھلتے ہیں۔‘‘ اس روز ہر شہر گلی، کوچے میں رونق نظر آتی ہے۔ گھروں کو سجایا جاتا ہے، چراغاں کیا جاتا ہے۔ گھرکی خواتین میٹھی عید کا مزا دوبالا کرنے کے لیے سوئیاں اور شیر خورمہ بناتی ہیں جب کہ مرد نماز عید کی ادائیگی کے بعدواپسی پر مٹھائیاں لے کر آتے ۔

تمام ملک میں عید کے خطبے دیئے جاتے ہیں ۔ نماز عید کے بعد ملک کے استحکام، ملت کی ترقی و عروج، بیاروں کی صحت یابی، دنیا سے رخصت ہونے والوں کی مغفرت اور شہداء کے درجات بلند کرنے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں‘‘۔ عید کا دن تمام مسلمانوں سے تقاصہ کرتا ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں غرباء ، مساکین اور نادار لوگوں کو بھی شریک کریں‘‘۔ انہیں نمازعید سے قبل فطرہ، زکوٰۃ کی صورت میں رقم ادا کرنے کے علاوہ غریب خاندانوں کی مالی مدد بھی کریں تاکہ وہ بھی اپنے اہل خانہ کو نئے کپڑے سمیت ضروری اشیاء دلوا کر عید منا سکیں۔

ان کے گھر میں بھی میٹھے پکوان پک سکیں‘‘۔ عبدالہادی جو امام صاحب کی باتیں بڑے غور سے سن رہاتھا، امام صاحب کے خاموش ہونے کے بعد اپنے بھائی کے کان میں بولا، ’’بھائی جان ، کیا غریبوں کی مالی امداد کرنے سے ہی ان کے حقوق ادا ہوسکتے ہیں‘‘۔

امام صاحب نے اس کی بات سن لی اور مسکرا کر بولے، ’’بیٹا ہادی، آپ نے اپنے بھائی سے بہت اچھا سوال کیا ہے، آپ غریبوں کی مدد نئے کپڑے، جوتے، اشیائے خوردنی فراہم کرکے بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کی دی گئی مالی رقم سے وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے اپنی مرضی اور بچوں کی خواہش کے مطابق اشیائے ضرورت خرید سکتے ہیں‘‘۔ نماز کے اختتام پر تینوں بھائی گھر پہنچے اور انہوں نے اپنی جمع کی ہوئی رقم اکٹھی کی جو اچھی خاصی تھی۔ ان کے گھر کے قریب ہی کچھ غریب خاندان رہتے تھے۔

انہوں نے وہاں جاکر تمام رقم ان میں تقسم کردی۔چند روز بعدعید تھی۔ عید کی نماز ادا کرکے جب وہ اپنے آرہے تھے تو انہوں نے ان بچوں کو بھی نئے کپڑوںمیں ملبوس عید کی خوشیاں مناتے دیکھا۔ یہ دیکھ کر انہیں بے انتہا مسرت ہوئی اور ان کی عید کی خوشیاں دوبالاہوگئیں۔