ہاتھی

May 12, 2021

اس نے کہا ’’انتونیا کی جھوٹ بولنے کی عادت ہم میاں بیوی کے درمیان مسلسل جھگڑے کا باعث تھی۔ شادی کے پہلے ہی دن ہاتھی والی بات پہ ہماری لڑائی ہوئی۔ ‘‘ ایک لمحے کے لیے وہ چپ ہوا ۔پھر اس نے کہا ’’ رشتہ کرانے والے کو میں نے کہا تھا کہ مجھے ایک یتیم لڑکی چاہئے ، جو خاموشی سے میرا ہر حکم بجا لائے۔ اس بدبخت نے انتونیا کا انتخاب کیا۔پھر وہ دن آئے ،جب جھگڑے کے بعدپوری پوری رات میں مے خانے میں جام لنڈھایا کرتا۔پورا قصبہ میرے حال سے واقف تھا۔

میں نے پوچھا : ہاتھی والی بات کیا تھی ۔ اس نے کہا :شادی کے پہلے دن میں نے اپنی دلہن سے اس کی عادات کے بارے میں پوچھا۔ انتونیا نے ایک ادا سے سر جھٹکا اور کہا : میں بے حد لاڈ پیار میں پلی ہوں ۔ جب میں ناراض ہوا کرتی تو میرا باپ میرادل بہلانے کے لیے ہاتھی لے کر آتا۔میں ہکّا بکّا رہ گیا۔ جسے میں یتیم سمجھ کر لایا تھا ، وہ ساری زندگی ناز اٹھوانے کے چکر میں تھی ۔ میں نے کہا :کیا تم یتیم نہیں ؟ اس نے کہا : نہیں ،بابا یورپ میں ہیں ۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ پانچ برس کی تھی ، جب اس کا باپ یورپ گیا اور پھرلوٹ کر نہیں آیا۔

ہاتھی والی بات کو میں نے جھوٹ قرار دیا تولڑائی شروع ہوئی اور وقفے وقفے سے سالوں جاری رہی ۔ ہماری ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔میں اس سے بے حد پیار کرتا۔ گھوڑا بن کر اسے اپنی کمر پہ بٹھاتا لیکن بچو ںکی ہر خواہش تو پوری نہیں کی جا سکتی ۔ اس پر وہ چیختے ہوئے یہ کہتی: انیکا تم ایک فقیر کی بیٹی ہو ، کسی رئیس کی نہیں ، جو تمہیں خوش کرنے کے لیے ہاتھی لے آئے۔

اس نے کہا : اس روز بھی ہمارے درمیان ایک خوفناک جنگ ہوئی ۔ پھر میں نے مے خانے کا رخ کیا۔ وہاں میں نے اس شخص کو پہلی بار دیکھا۔ ایک بے حد وجیہ ، دبلا پتلا اور طویل قامت بوڑھا جس کی سفید لٹیں اس کے کندھوں کو چھو رہی تھیں۔بالکل ساکت بیٹھا ، وہ یک ٹک میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ میرا دل چاہا کہ کسی دانا سے اپنا دکھ بیان کروں ۔ میں اس کی طرف کھنچتا چلا گیا ۔

’’بیویاں ‘‘ میں نے بوتل پٹختے ہوئے کہا ۔ وہ ہنس پڑا ۔’’بیویاں ‘‘ اس نے مزے لے لے کر دہرایا ۔میں نے کہا :بات یوں کرتی ہے ، جیسے کوئی شہزادی ہو ۔میں جام لنڈھاتا رہا اور اپنا دکھ بیان کرتا رہا۔ میں نے اسے تصاویر دکھائیں ، جن میں ، میں گھوڑا بن کے انیکا کو سواری کرا رہا تھا ۔ یہ بھی کہ وہ اسے کہتی ہے : تم ایک فقیر کی اولاد ہو ۔

میں نے دیکھا کہ بوڑھے کے بازوئوں پر زنجیروں کے گہرے نشان تھے ، جنہیں وہ کھجاتا رہتا ہے۔کئی گھنٹے بعد آخر میں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ جاتے جاتے میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا : کیا کوئی باپ اپنی بیٹی کو خوش کرنے کے لیے ہاتھی لا سکتاہے ؟

اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا : نہیں ،ایسا ہو تو نہیں سکتا لیکن اتفاقاً ہاتھی والا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ میری بیٹی بے حد بیمار تھی ۔ تیز بخار کی حالت میں، ہاتھی کی ایک کہانی سنتے سنتے ، وہ ہاتھی دیکھنے کی ضد کرنے لگی۔مجبوراً نوٹوں کا ایک تھیلا لیے، میں ایک سرکس والے کے پاس گیا ۔ جب میری بیٹی نے گھر کے سامنے ایک ہاتھی دیکھا تو وہ بے حد خوش ہوئی ۔ بعد ازاں اس ہاتھی سے اس کی دوستی ہو گئی ۔ وہ چپ ہو گیا ۔

میرا دماغ سنسنا رہا تھا۔میں نے چیخ کر کہا : تم جھوٹ بولتے ہو۔بچّے کو خوش کرنے کے لیے کون ہاتھی لاتا ہے ؟ اس نے جیب سے ایک تصویر نکالی ۔ایک چھوٹی سی بچی ہاتھی کی سونڈ سے لپٹی ہوئی تھی ۔

میں کچھ دیر خاموشی سے یہ تصویر دیکھتا رہا۔گو میں نشے میں تھا لیکن سارا کھیل سمجھ چکا تھا ۔یہی وہ شخص تھا، جو میری بربادی کا سبب تھا۔ زنجیروں کے نشان ،اس کا قد کاٹھ اور مخاطب کے دماغ میں اترتی آنکھیں۔ وہ یقیناً کسی خفیہ ادارے سے تعلق رکھتا تھا ۔بیرونِ ملک دشمن نے اسے پکڑ لیاتھا۔ اس کی صحت تباہ ہو چکی تھی اور اس وقت وہ بالکل قلاش تھا ۔ میں نے اپنی چار ہیرا جڑی انگوٹھیاں اتار کر اسے پیش کیں۔وہ ہنس پڑا۔میں گرتا پڑتا واپس پہنچااور بستر پہ گر کے بے ہوش ہو گیا ۔

اگلی صبح میری آنکھ ہاتھی کی چنگھاڑ سے کھلی ۔ میں دوڑتا ہوا باہر نکلا۔ وہاں ایک سچ مچ کا ہاتھی کھڑا تھا ۔ انتونیا چیخ رہی تھی ’’ بابا آئے ، ہاتھی لائے ، بابا آئے ہاتھی لائے ۔‘‘پھر انیکا بھی کورس میں گانے لگی : بابا آئے ، ہاتھی لائے ۔ہاتھی بھی انتونیا کو پہچان چکا تھا اور اس سے خوب لاڈ کر رہا تھا۔ خوشی سے چیختی ہوئی انتونیا نے کہا : پاشا میں نے کہا تھا نا، میرے بابا ہاتھی لاتے ہیں ۔میں کھسیانا سا ہو کر اسے دیکھتا رہا۔

آخر ہم اندر لائونج میں جا بیٹھے۔ اس وقت وہ واقعہ پیش آیا۔میں سگریٹ سلگانے لگا تو لائٹر ندارد۔ اسی وقت بوڑھے نے ہاتھ بڑھایا۔ میرا مخصوص طلائی لائٹر اس کے ہاتھ میں تھا۔حیرت سے بت بنی انتونیا نے اپنے باپ کو میرا سگریٹ سلگاتے دیکھا۔ پھر بوڑھے نے خود بھی اپنا سگار سلگایااورایک طویل کش لیتے ہوئے اس نے کہا: ہمارے خاندان کی لڑکیاں شوہروں کے سامنے کبھی اپنی آواز اونچی نہیں کرتیں ۔ مجھے امید ہے کہ انتونیا نے کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہ دیا ہوگا۔

میں نے انتونیا کی طرف دیکھا۔ خوف کی شدت سے اس کا رنگ زرد تھا۔ میں نے مسکرا کر کہا: جی جناب، انتونیا نے کبھی مجھے تنگ نہیں کیا۔اس دن کے بعد انتونیا سے کبھی میرا جھگڑا نہیں ہوا۔