برصغیر کے واحد نوبیل انعام یافتہ بنگالی ادیب ’’رابندر ناتھ ٹیگور‘‘

May 17, 2021

برصغیر سے عالمی ادب میں سب سے معروف شخصیت کا نام’’رابندر ناتھ ٹیگور‘‘ ہے۔ 1913 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے ٹیگور صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایشیا سے بھی پہلی شخصیت تھے، جنہیں اُس وقت یہ اعزاز دیا گیا تھا۔ 1915 میں ان کو برطانوی سرکار کی طرف سے’’سر‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا تھا، جس کو انہوں نے 1919 میں، انگریزوں کی طرف سے، جلیانوالہ باغ میں ہندوستانیوں کا قتل عام کرنے کے ردعمل میں واپس کر دیا۔ ہندوستان کی کئی جامعات سمیت اوکسفرڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ آپ کو’’انسانیت کا شاعر‘‘ اور ’’بنگالی زبان کا شیکسپیئر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

رابندر ناتھ ٹیگور بنگالی زبان کے قدآور شاعر، ادیب، موسیقار، فلسفی اور مصور تھے۔ آپ کی پیدائش کا سال 1861 ہے، جبکہ وفات کا برس1941 ہے۔ آپ کے خاندان کا شمار کلکتے کی اشرافیہ میں ہوتا تھا، آپ کے دادا اور والد نے کلکتے کی سماجی ترقی میں عملی طور پر حصہ لیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کلکتے میں ہی حاصل کی، جبکہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے 1878 میں انگلستان گئے، لیکن اس رسمی تعلیم کوادھورا چھوڑ کر واپس چلے آئے۔ خود کو حقیقی معنوں میں دریافت کیا اور پھر وقت نے بھی ثابت کیا کہ وہ کتنے بیدار مغز تھے۔

1901 میں بولپورکے مقام پر’’شانتی نکتین‘‘ نامی علمی مرکز کی بنیاد رکھی، جہاں مشرقی و مغربی علوم، بالخصوص فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ 1921 میں اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ انہوں نے پوری دنیا کے شعر و ادب کو اپنے طور سے پڑھا، عالمی تہذیب و تمدن کو سمجھتے ہوئے بنگالی زبان میں، اپنی تخلیقات کو مقامی طرز میں ڈھالا، مذہب، سماج اور ان سے فرد کا تعلق اور سماجیات کو باریک بینی سے لکھا اور عوامی طور پر سہل تشریحات کیں، ان کو ایک روحانی گرو کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ ان کی شادی ہوئی، جب بیوی اور دو بچوں کی ناگہانی موت ہوئی، تو اس کے بعد سے، ان کی ذات میں بہت بدلائو آیا،وہ ذہنی اور قلبی طور پر بہت تبدیل ہوئے۔ انہوں نے بطور موسیقار بے شمار دھنیں بھی ترتیب دیں اور مصوری بھی کی۔

وہ انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے حق میں تو تھے، مگر ہندوستان کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے، ان کے خیال میں، مذہب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کر دینے کا عمل درست نہیں، وہ ہمیشہ بھائی چارے اور مساوات کی بات کرتے تھے۔ ابتدائی طور پر ایسے خیالات رکھنے کی وجہ سے، ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن وہ محبت کا پیغام دیتے رہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد، بھارت نے اپنے قومی ترانے میں ان کی شاعری کے کچھ مصرعے شامل کیے، جبکہ بنگلہ دیش نے ان کی شاعری سے اپناقومی ترانہ مرتب کیا۔ ٹیگور نے امریکا، روس، چین، جاپان اور کئی اہم یورپی ممالک کے دورے کیے اور وہاں خطبات دیے۔ دنیاکی کئی بڑی شخصیات سے ان کے ذاتی مراسم تھے، جن میں معروف سائنسدان آئن اسٹائن بھی شامل ہیں۔

عمر کے آخری حصہ میں انہیں، لاطینی امریکا کے ملک، ارجنٹائن کی ایک اہم شاعرہ’’وکٹوریہ اوکمپو‘‘ سے محبت بھی ہوئی۔ ان کے اس رومانوی پہلو کے حوالے سے بھارتی گریز کرتے ہیں، البتہ ارجنٹائن میں ان کے اس شخصی رُخ پر ایک فلم’’آسکنگ ٹو ہِم‘‘ بنائی گئی، جو 2018میں ریلیز ہوئی، اس میں بھارت کے معروف بنگالی اداکار’’وکٹربنرجی‘‘ نے ٹیگور کی شخصیت سے انصاف کرتے ہوئے، شاندار اداکاری کی ہے۔ معروف بنگالی فلم ساز’’ستیا جیت رے‘‘ بھی ان کے مداح تھے، انہوں نے بھی ان کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی، مگروہ اتنی متاثرکن نہیں ہے۔ نوجوانی میں ٹیگور نے تھیٹرکے ناٹکوں کے لیے اداکاری بھی کی، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہا۔

رابندر ناتھ ٹیگور نے قلمی دنیا میں بے شمار کام کیا۔ ان کی پہلی کتاب جب شائع ہوئی، تو ان کی عمر صرف 17 سال تھی۔ ان کی شاعری کے چھ مجموعہ ہیں، جن میں ’’گیتا نجلی‘‘ وہ شہرت یافتہ شعری مجموعہ ہے، جس پر انہیں نوبیل کا ادبی انعام دیا گیا۔ اگلے ہی برس 1914 میں اس شہرہ آفاق کتاب کا اردو ترجمہ، دنیائے اردو کی معروف ادبی شخصیت، علامہ نیاز فتح پوری نے بھی کردیا تھا۔ 1985 میں ایک اوراردو ترجمہ عزیز احمد جلیلی نے بھی کیا تھا۔ ٹیگور نے اسٹیج کے لیے سات ناٹک لکھے، دو حصوں میں یادداشتیں قلم بند کیں، جبکہ درجنوں مختصر کہانیاں اور افسانے لکھے، جبکہ کل تیرہ ناول بھی تحریر کیے، جن میں ان کا سب سے مشہور ناول’’گورا‘‘ ہے۔،جس کے مختلف ناشرین سے چھپے ہوئے 50مختلف ایڈیشنز تو تحقیق کے ذریعے میرے علم میں ہیں۔کسی ایک ہی ناول کومختلف ناشرین سے شائع ہونے کایہ منفرد اعزاز بھی ٹیگور کے اس ناول کو ہی حاصل ہے۔

ناول’’گورا‘‘ کو ان کی دیگر تخلیقات کی طرح بہت پذیرائی ملی۔ یہ ناول 1910 کو بنگالی زبان میں شائع ہوا تھا۔ یہ ان کا سب سے طویل اور ضخیم ناول ہے۔ 1962 میں معروف ترقی پسند ہندوستانی ادیب’’سجاد ظہیر‘‘ نے ٹیگور کے اس ناول’’گورا‘‘ کا ترجمہ اردو زبان میں کیا تھا، جس کو ساہتیہ اکادمی، انڈیا نے شائع کیا تھا، جس کا دوسرا ایڈیشن 1981 میں چھپا۔ ان کی شاعری، افسانوں اور ناولوں کے تراجم دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں ان کی کتابوں کے اردو تراجم میں عبدالمجید سالک اور عبدالعزیز خالد کے نام سرفہرست ہیں۔

ٹیگور برصغیر پاک و ہند کے واحد ادیب ہیں، جن کی کہانیوں پر سب سے زیادہ فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے، بلکہ سینما کے خاموش عہد سے ان کی کہانیوں کو فلمایا جا رہا ہے۔ ہم نے ان کے اسی متذکرہ ناول’’گورا‘‘ پر 1938 میں بننے والی بنگالی فلم کا انتخاب کیا ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار’’نریش مترا‘‘ تھے، جبکہ فلم میں انہوں نے بحیثیت اداکار بھی کام کیا۔ فلم کی موسیقی مشہور بنگالی موسیقار’’قاضی نذر الاسلام‘‘ نے دی تھی۔ اس وقت کے بنگالی اداکاروں نے اس میں کام کیا، جبکہ اس فلم کی ٹیم میں اکثریت ایسے ہنرمندوں کی تھی، جو خاموش فلموں میں بھی کام کرچکے تھے۔

یہ فلم یوٹیوب پر دو حصوں میں دستیاب ہے، جس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بالخصوص بنگالی فلم سازوں نے بہت تیزی سے فلم کے میڈیم کو سمجھنا اور برتنا شروع کر دیا تھا۔ ان کو یہ بھی اندازہ تھاکہ مغرب تک اپنی فکر کو کیسے پہنچانا ہے، اسی لیے اُس وقت بھی فلم بناتے ہوئے، انگریزی سب ٹائٹلزشامل کیے، یہ ان کی دور اندیشی تھی۔

کسی بھی تہذیب اور ثقافت میں کس طرح اپنی بڑی اور ممتاز شخصیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت پر بننے والی فلموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے، جبکہ اپنی ثقافت کی دنیا بھر میں کیسے سفارت کاری کی جاتی ہے، اس کو شعوری کوشش کے تحت، جس طرح ٹیگور نے کرکے دکھایا، وہ اپنی مثال آپ ہے، پھر ان کے بعد آنے والوں نے بھی ان کی پیروری کی۔

آج تک ان کی کہانیوں پر فلمیں بن رہی ہیں۔ 2020 میں نیٹ فلیکس پر ان کی سات مختلف کہانیوں پر بنائی گئی ویب سیریز کو پیش کیا گیا جبکہ ان کے ناول پر بنائی گئی پہلی فلم’’بالی دان‘‘تھی، جس کو 1927 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا اور یہ ایک خاموش فلم تھی۔