تمباکو نوشی: ہزارہا مضرات میں، کورونا وائرس سے جلد متاثر ہونے کا خطرہ بھی شامل ہے

May 30, 2021

’’تمباکو نوشی مضرِ صحت ہے‘‘ یہ جملہ بارہا پڑھا اور سُنا جاتا ہے، جب کہ سگریٹ کے اشتہارات کے بعداور ڈراموں کے اُن مناظر میں بھی، جن میں تمباکو نوشی کی جارہی ہو، ازراہِ تکلّف یہ جملہ شامل کر لیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی انسانی نفسیات میں شامل ہے کہ جس بات سے روکا جائے، بالخصوص اوائل عُمری میں، تو وہی بے انتہا کشش کا باعث بن جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اس جان لیوا عادت میں مبتلا ہوچُکی ہے۔اللہ تعالیٰ کی گراں قدر نعمتوں میں سے ایک نعمت صحت و تن درستی ہے، جسے ہم کسی بھی طور ثانوی حیثیت نہیں دے سکتے کہ ر وزمرّہ زندگی کی تمام تر تگ و دو میں تن درستی اہم کردار ادا کرتی ہےاور اسی لیے ایسی عِلّتوں سے بچنا بےحدضروری ہے، جن کا انجام بالآخر مُہلک ثابت ہوتا ہے۔

جیسے کہ تمباکو نوشی،خواہ وہ سگریٹ، شیشے، حقّےکی صُورت کی جائے یا پھر پان، گٹکے کی شکل میں۔ یہ ہر اعتبار سے مضرِ صحت ہی نہیں، مُہلک بھی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر کی کُل انسانی آبادی کا ایک تہائی حصّہ اس علّت کا شکار ہے، خاص طور پر نو عُمر طلبہ میںتمباکو نوشی کا رجحان تیزی سےبڑھ رہا ہےاور خدشہ ہے کہ اگلے پچیس برسوں میں یہ اعدادو شمار دُگنے ہوجائیں گے۔

اسی خوف ناک صُورتِ حال سے بچاؤ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے، عالمی ادارۂ صحت نے جہاں کئی اقدامات کیے ، وہیں انسدادِ تمباکونوشی کے حوالے سے سال کا ایک دِن بھی مختص کیا ہے،جس کے تحت دُنیا بَھر میں ہر سال31مئی کو’’انسدادِ تمباکو نوشی کا عالمی یوم‘‘ باقاعدہ ایک تھیم منتخب کرکے منایا جاتاہے۔ اِمسال کا تھیم"Commit to Quit" ہے۔ یعنی چھوڑنے/ترک کرنے کا عہد کریں۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 36 فی صد مَرد اور 9فی صد خواتین اس علّت میں مبتلاہیں۔ دراصل برسوں سے جس خُوب صُورت پس منظر کے ساتھ اس لت کو فروغ دیا جارہا ہے، یہ بڑھتی ہوئی شرح اِسی کانتیجہ ہے کہ نوجوان طبقہ اس بدعادت کو اپنانے میں بھی فخر اور آسودگی محسوس کرتا ہے۔

آج بھی نو عُمر طلبہ کی ایک بڑی تعداد، جو ہمارے مُلک کا مستقبل بھی ہے، اسی قبیح عادت کی شکار ہے اور جب تک ہم مِن حیث القوم اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے،ہمارا مستقبل روشن ہونے کی کوئی اُمید بھی نہیں۔ اصل میں تمباکو کے اندرنکوٹین نامی ایک ایسا کیمیائی مادّہ پایا جاتا ہے، جو انسانی جان کے لیے زہرِقاتل ہے۔ یہ مادّہ کئی ایسی بیماریوں کا بھی موجب بنتا ہے، جو تمباکو نوش کو مَرنے دیتی ہیں، نہ ہی بہتر طور پر جینے۔ تمباکو نوش افراد میں تپِ دق، Emphysema، پھیپھڑوں کا سرطان، سانس کے امراض، دائمی کھانسی، اختلاجِ قلب ، بُلند فشارِخون، فالج، گُردوں کے فعل میں کمی، ہڈیوں کی کم زوری اور دیگر عوارض لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

نیز، یہ علّت مختلف اعضاء مثلاً منہ، گلے،زبان، نرخرے، غذا کی نالی، معدے اور لبلبے کے کینسرز کی بھی وجہ بن سکتی ہے،تو بعض اوقات دِل کی نالیاں تک بند ہوجاتی ہیں۔ غرض کہ یہ ایک ایسی لت ہے، جو ایک چاق چوبند، صحت مند فرد کو تباہی کے دہانے تک لے جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں، تمباکو میں کئی خطرناک کیمیائی مادّے مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن سائنائڈ وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں، جو انتہائی مضرِ صحت ہیں۔تمباکو نوشی کے جسمانی نقصانات تو اپنی جگہ، انسانی نفسیات پر مرتّب ہونےوالے منفی اثرات بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے ہیں، جن میں ذہنی تناؤ، چڑچڑا پَن، ڈیپریشن اور مینٹل کنفیوژن جیسے مسائل سرِفہرست ہیں۔

یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ تمباکو نوش افراد اس علّت کو ٹینشن اور ڈیپریشن دُور کرنے ہی میں مددگار تصوّر نہیں کرتے، بلکہ ہر قسم کے مسائل حل کرنے میں معاون پاتے ہیں۔ اگرچہ وہ اس مضرِ صحت عادت کے ذریعے سُکون تلاشتے ہیں اور انھیں وقتی سُکون حاصل بھی ہو جاتا ہے، مگر چوں کہ اس کا اثر دیرپا نہیں ہوتا، لہٰذا وہ مزید ڈیپریشن کا شکار ہوتے چلےجاتے ہیں۔

تمباکو نوش اپنے ہاتھوں اپنی صحت توتباہ کرتا ہی ہے، مگر آس پاس موجود افرادبھی اس کی تمباکو نوشی کے مضراثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتے ہیں،کیوں کہ تمباکو کا دھواںاُن افراد پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، جو اس علّت کا شکار نہیں۔ طبّی اصطلاح میں سگریٹ کے دھوئیں سے متاثر ہونے کو "Passive Smoking'' کہتے ہیں۔ تحقیق سےثابت ہوا ہے کہ تمباکو نوش کے ساتھ رہنے والا فردایک گھنٹے میں تمباکو کا جتنا دھواں سانس کے ذریعے سونگھتا ہے، وہ ایک سگریٹ پینے ہی کے برابر ہے۔

دینِ اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے، تو اس عمل کے تدارک سے متعلق متعدّد احادیث ملتی ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺنے فرمایا،’’نہ دوسرے کو تکلیف دو ،نہ ہی اپنی ذات کو‘‘۔(مسند احمد)ایک اور جگہ آپ ﷺنے فرمایا،’’مومن وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں‘‘۔(بخاری) حدیث مبارکہﷺ ہے،’’دراصل ایک اچھے اور بُرے ساتھی کی مثال یوں ہے، جیسے عطر فروش اور لوہار۔ عطر فروش سے یا تو تم عطر خریدلوگے یا پھر کم از کم اس کے پاس سے عطر کی خوشبو ہی لے کر اُٹھوگے اور ایک بھٹی پھونکنے والے کے پاس بیٹھنے سے یا تو کپڑے ہی جل جائیں گے یا پھر دھوئیں اور بدبو سے سانسیں آلودہ ہو جائیں گی۔‘‘(بخاری ، مسلم) جب کہ تمباکو نوشی کے دیگر غیر اخلاقی پہلوؤں میں بیماری اور ہلاکت سے خود اپنی ذات اوراس کے دھوئیں سے اپنے قریب رہنے والوں کا نقصان، مال کا بے جا اسراف، خصوصاً نو عُمر افرادکو بُرائی کی ترغیب دینا وغیرہ شامل ہیں۔

حالاں کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کے خلاف قوانین میں عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت اور کم عُمر افراد کو اس کے فروخت پر پابندی بھی شامل ہیں، مگر افسوس کہ ان قوانین پر عمل درآمد کی شرح تقریباً صفر ہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حکومتی سطح پر تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے متعلق شعور بعام کیا جاتا ہے،جب کہ اس علّت کی بیخ کنی کے لیے تمام ذرائع ابلاغ بھی استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن جب ایسی تمام تر مہمات کا موازنہ، تمباکونوشی سے ہونے والے نقصانات سےکیا جائے، تو یہی امر سامنے آتا ہے کہ انسدادِ تمباکو نوشی کے اقدامات میں مزید توجّہ اور تیزی درکار ہے۔

تمباکو نوشی کی نشہ آور تاثیر دیکھتے ہوئے علماء و فقہاء نے اسے ’’مکروہ‘‘ کا درجہ دیا تھا، مگر جب صحت کے حوالے سے اس کے مزید نقصانات سامنے آئے، تو انھوں نے اس موقف میں ترمیم کی اور مارچ 1982ء میں مدینۂ منورہ میں ہونے والی اسلامی کانفرنس برائے انسدادِ منشیات میں عالمِ اسلام کے 17 جیّد علمائے کرام نے،جن میں مفتیٔ اعظم سعودی عرب، عبدالعزیز بن باز، ریکٹر جامعۃ الازہر، ڈاکٹر احمد عُمر ہاشم، مفتیٔ اعظم عمّان، شیخ احمد بن عمّاد الخلیلی اور علّامہ یوسف القرضاوی شامل تھے، واضح طور پر اسے ’’حرام‘‘ قرار دے دیا۔

تمباکو نوشی کو حرام قرار دینے کے لیے جو دلائل دیے گئے، اُن میں قرآنِ پاک کی جن آیات کو نقل کیا گیا، وہ یہ ہیں۔’’اور تم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘(سورۃ البقرہ کی آیت نمبر195) ،’’اور اپنے آپ کو قتل مت کرو ، بلا شبہ اللہ تم پر بہت مہربان ہے‘‘(سورۂ النساء، آیت نمبر29)، ’’اور نبیﷺ اُن کے لیے پاک چیزیں حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں‘‘(سورۃالاعراف کی آیت نمبر157) اور’’حلال کردی گئی ہیں تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں‘‘۔( سورۃ المائدہ، آیت نمبر4)اس ضمن میں چند ارشادات ِ نبویﷺ بھی پیش کیے گئے۔ مثلاً ’’ہر نشہ آور شے خمر ہے اور خمر حرام ہے‘‘۔(مسلم)’’جس شے کی زیادہ مقدار سے نشہ ہوتا ہے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے‘‘ (ابو داؤد)۔

انسدادِ تمباکو نوشی: یقیناً کسی بھی عادت کو ترک کرنا آسان نہیں، بالخصوص جب عادت کی بنیاد کسی قسم کا نشہ ہو۔ اس کے لیے مضبوط قوتِ ارادی درکار ہوتی ہے۔چوں کہ ماہِ صیام میں تمباکو نوش افراد روزے کی حالت میں دِن بَھر اس علّت سے دُور رہنے کی پریکٹس کرچُکے ہیں، تو اب عام دِنوں میں بھی ذرا سی ہمّت کا مظاہرہ کرلیا جائے، تو اس مکروہ عادت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بس نیّت، کوشش اور دُعا کی ضرورت ہے۔

اگر کسی قسم کے Withdrawal Symptomsکا سامنا ہو تو انھیں ماہرینِ طب کی مدد سے دُور کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ اس عادت سے نجات کے بعد بھی اس پر قائم رہنے کے لیے صبر اور برداشت کی ازحد ضرورت ہوتی ہے، مگر پھر یہ بھی یاد رہے کہ کلامِ پاک میں سورۃالعصر کی اختتامی آیت میں صبر نہ کرنے والوں کو خسارے کی خبر دی گئی ہے۔ اور پھر ہمارے پیشِ نظر یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ چند دِن کی یہ دشواری عُمر بَھر کی بے کار اور بیمار زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ ترکِ تمباکو نوشی کا فیصلہ نہ صرف تن درست و توانا رکھے گا، بلکہ ادویہ اور معاشی دباؤ سے بھی ممکنہ حد تک تحفّظ حاصل ہوجائے گا۔

کورونا وائرس اور تمباکو نوشی

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ کورونا وائرس تب حملہ آور ہوتا ہے، جب کسی فرد کی قوّتِ مدافعت کم زور ہو،جب کہ اس وائرس کےمضر اثرات پھیپھڑوں پر زیادہ مرتّب ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمباکونوشی کے نتیجے میں بھی مدافعتی نظام کم زور پڑجاتا ہے اور پھیپھڑے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے جب تحقیق کی گئی، تو ایسے تمام مریض جو تمباکو نوشی میں مبتلا تھے، دیگر افراد کی نسبت کورونا سے زیادہ متاثر پائے گئے۔

امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں20 سے 54 برس کے تمباکو نوش افراد پر وبا کا ردِعمل اور اموات کی شرح عام مریضوں کی نسبت 14 فی صد بُلند ، کیوں کہ کورونا وائرس اور تمباکونوشی دونوں ہی پھیپھڑوں اور نظامِ تنفس پر اثر انداز ہوتے ہیں، لہٰذا ہر تمباکو نوش کو چاہیے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے، اس علّت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یاد رکھیے، یہ کوشش صرف آپ کی صحت ہی کو فائدہ نہیں دے گی، بلکہ آپ کے خاندان اور معاشرے کو بھی بہتر بنانے میں فراہم کرے گی۔

(مضمون نگار،سینئر کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ ہیں، او ایم آئی اسپتال، کراچی کے شعبۂ امراضِ سینہ و تنفّس میں بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل لیاقت نیشنل اسپتال، کراچی کے شعبہ پلمونری کے سربراہ رہے۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں)