بجٹ 2021-22، ایک جائزہ

June 14, 2021

وزیر خزانہ نے بجٹ برائے مالی سال 2021-22ء پیش کیا ۔ بجٹ کی لائیو ٹی وی ٹرانسمیشن میں مجھ سمیت بے شمار معاشی تجزیہ نگاروں نے بجٹ پر اپنا اپنا تجزیہ پیش کیا جو میں قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ بزنس کمیونٹی نے کورونا وبا اور آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے موجودہ حالات میں بجٹ کو ایک متوازن بجٹ قرار دیا ہے۔ میرے مطابق وزیر خزانہ نے معیشت کی بحالی کیلئے صحیح شعبوں کا انتخاب کرکے ان میں ترقی کیلئے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے جس میں زراعت، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کے فروغ سے ایکسپورٹ گروتھ حاصل کرنا ہے۔ زراعت کا شعبہ مسلسل تنزلی کی طرف جارہا ہے اور اس سال بھی اپنے ہدف 3.31فیصد کے بجائے بمشکل 2.77فیصد گروتھ حاصل کرسکا جس میں کپاس کی پیداوار میں 50فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے اور اس کی پیداوار 13ملین بیلز سے کم ہوکر بمشکل 6.5ملین بیلز ہوسکی ہے۔ آئندہ سال بھی حکومت نے کاٹن کی پیداوار کا ہدف 10.5ملین بیلز سالانہ رکھا ہے جبکہ کاٹن کی عام طور پر پیداوار 13ملین بیلز سالانہ رہی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو اس سال 2ارب ڈالر کی کاٹن امپورٹ کرنا پڑی۔ حکومت نے آئندہ مالی سال ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کا ہدف 20ارب ڈالر اور مجموعی ایکسپورٹ کا ہدف 35 ارب ڈالر رکھا ہے جو غیر حقیقی لگتا ہے۔

اس سال حکومت نے 3.9فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کی ہے جبکہ بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اسٹیٹ بینک کے جی ڈی پی گروتھ کے تخمینے 1.5فیصد سے 3فیصد تک تھے۔ میرے نزدیک بجٹ سے کچھ عرصہ قبل جی ڈی پی گروتھ میں اس قدر اضافے کی بڑی وجہ حکومت کا گیہوں کی کم از کم سپورٹ پرائز 2000روپے فی من کرنا تھا جس سے تقریباً 1200ارب روپے کاشتکاروں کو اضافی ملے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ ترسیلات زر وصول ہوئی ہیں جو اس سال 29ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں اور روشن ڈیجیٹل پاکستان اکائونٹ میں بیرون ملک سے 1.25ارب ڈالر موصول ہونے والی ریکارڈ ترسیلاتِ زرسے لوگوں نے موٹر سائیکلیں، چھوٹی کاریں، مکانوں کی بکنگ وغیرہ کرائیں اور اِن معاشی سرگرمیوں سے جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔جب بھی زرعی اجناس کی امدادی قیمت بڑھائی جاتی ہے تو کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں۔پاکستان ایک زمانے میں خطے میں کھانے پینے کی اشیاء اور زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے والا ملک تھا مگر آج پاکستان چینی، گندم، خوردنی تیل، کاٹن جیسی اہم زرعی اجناس امپورٹ کرنے والا ملک بن چکا ہےحالانکہ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام، زرخیز زمین، محنتی کاشتکار اور چاروں موسم ہیں۔ قائداعظمؒ کا خواب ایک زرعی اور صنعتی پاکستان تھا، ہم نے پاکستان کو ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا لہٰذاہمیں اپنے کاشتکاروں کو جدید بیج، ملاوٹ سے پاک ادویات اور کھاد فراہم کرنا ہوگی تاکہ ہماری فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوسکے۔ پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکسز 40فیصد اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز بڑھ کر 60فیصد تک ہوگئے ہیں جبکہ دنیا میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز ختم کرکے ڈائریکٹ ٹیکسز کے نظام کو فروغ دیا جارہا ہے۔ موجودہ بجٹ میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسز میں کمی کیلئے 12 شعبوں میں ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ، سیلز ٹیکس اور کیپٹیل گین میں کمی، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں اور آئی ٹی سیکٹر کی ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے مراعات اور عام آدمی کو ریلیف دینے کو سراہا گیا ہے۔ میں ایف بی آر کے چیئرمین عاصم احمد اور ممبر ان لینڈ ریونیو ڈاکٹر اشفاق احمد اور ان کی ٹیم کو رواں مالی سال ریکارڈ ریونیو وصولی اور فاسٹر نظام کے تحت ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کو سراہتا ہوں۔

وزیر خزانہ کے اکنامک سروے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں گردشی قرضے جو حکومت کے لئےسب سے بڑا چیلنج ہیں، کے بارے میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ گردشی قرضوں کی وجوہات میں بجلی کی ترسیل کے تیکنیکی (T&D)نقصانات، بجلی کے بلوں کی کم وصولی، سبسڈی کی وقت پر عدم ادائیگی اور بجلی گھروں کی غیر استعمال شدہ بجلی کی کیپسٹی چارجز کی مد میں ادائیگی جو 455ارب روپے سالانہ کے حساب سے دی جارہی ہے، کیپسٹی سرچارج کی مد میں تقریباً 40 فیصد ادائیگیاں حکومتی پاور پلانٹس کو بھی دی جارہی ہیں جو گردشی قرضوں میں اضافے کا سبب ہیں۔وزیر خزانہ کے مطابق گردشی قرضوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کو ملک میں صنعت کاری کے فروغ سے بجلی کی طلب میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ بجلی کی اضافی طلب کیلئے ہم ان بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی خریدسکیں اور حکومت کو آئی پی پیز کو غیر استعمال شدہ بجلی پر کیپسٹی سرچارج نہ دینا پڑے۔ وزیر خزانہ کی پریس بریفنگ کے مطابق اس طریقہ کار سے گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے میں 6سے 7سال لگ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک گردشی قرضوں کو اتنی طویل مدت کیلئے برداشت کرنا قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہوگا۔ حکومت کے لئے دوسرا بڑا چیلنج خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے ہیں جس کیلئے حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں 1000ارب روپے ان اداروں میں جھونک دیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب حکومت نے ان اداروں کی نجکاری یا تنظیم نو کیلئے 3 سال کے بعد اب پرائیویٹ سیکٹر کمیٹی تجویز کی ہے لیکن قانونی طور پر نجکاری کا اختیار صرف نجکاری بورڈ کو ہے، ایسا تو نہیں کہ کمیٹی کے قیام سے حکومت ان اداروں کے مسائل کو آنے والی حکومت پر ڈالنا چاہتی ہو، جو ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔