دل کے ٹکڑے

June 23, 2021

بچپن میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ’’ ابو زیادہ اچھے لگتے ہیں یا امی؟؟؟‘‘ مجھے زہر لگا کرتا اور آج بھی لگتا ہے ، کسی معصوم ننھی سی جان کو بے کار میں مشکل میں ڈالنا۔ سب جانتے ہیں کہ ننھے بچوں کی پوری دنیا صرف ان کے والدین ہوتے ہیں اب ان میں سے کسی ایک کا نام لینا بچوں کو مشکل ترین لگتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں اکثر میرے دل میں آتا کہ کہہ دوں کہ ’’امی زیادہ اچھی لگتی ہیں ‘‘ کیوں کہ قدرتی طور پر بچہ اپنی ماں کے زیادہ قریب ہوتا ہے کچھ طلب اور رسد کا رشتہ بھی ہوتا ہے، ماں اپنے بچے کی تمام بنیادی ضروریات بچپن میں مثلاً کھلانا ، پلانا، نہلانا، سلانا وغیرہ وغیرہ باپ کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر کر رہی ہوتی ہے۔

اس لئے بچہ بھی باپ کے مقابلے میں ماں سے زیادہ قریب ہوتا ہے لیکن جب ابو کا چہرہ نگاہوں میں آتا تو میں رک جاتی کہ ’’نہیں نہیں ایسا تو نہیں ہے کہ امی زیادہ اچھی ہیں ،ابو بھی بہت بہت اچھے ہیں ، ایسے کیسے کہہ دوں کہ امی اچھی ہیں ‘‘اور یہی کیفیت میں نے ہمیشہ ہر اس بچے کے چہرے پر دیکھی ،جس سے یہ سوال پوچھا جا تا ،اس میں میرے اپنے بچے بھی شامل رہے اور آج بھی جس بچے سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے وہ ایک گومگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے ۔

عمر بڑھتی گئی سمجھ آتی گئی اور رشتے بھی بڑھتے گئے ،مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ جذباتی ہوتی ہیں ، محبتوں میں شدت پسند بھی ہوتی ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں بہت جذباتی ہوں مجھے اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت یہ احساس رہا کہ جیسے میرے دل کے بہت سے ٹکڑے ہیں اور ہر ٹکڑے پر میرا کوئی نہ کوئی پیارا رشتہ قابض ہے ، جب دل میں جھانک کر دیکھتی ہوں تو بے شمار لوگ مسکراتے نظر آتے ہیں ، کبھی کبھی دنیا کے دھندوں میں الجھ کر کسی کو کچھ دنوں کے لئے بھول بھی جاؤں تو دل کے ٹکڑے کی دستک ایسی ہوتی ہے کہ وہی سب سے پیارا لگنے لگتا ہے ۔

بچپن میں ماں باپ ہی سب کچھ تھے پھر اُن کے ساتھ بہن بھائی کی محبت شامل ہوئی۔ ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ کچھ اور رشتے بھی ایسے ہیں جو دل میں ایک بڑی جگہ پر قابض ہیں ، پہلے لگتا تھا کہ دل کے صرف دو ٹکڑے ہیں ایک میں ابو رہتے ہیں اور دوسرے میں امی لیکن پھر اندازہ ہوا کہ نہیں میری چونکہ کوئی بہن نہیں اس لئے دونوں بھائیوں نے میرے دل کے بڑے بڑے ٹکڑوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

اس کے علاوہ بھی کچھ ٹکڑوں پر کچھ بہت پیارے خونی رشتوں کا قبضہ الگ تھا جو آج تک ہے ، پھر شادی ہوگئی اور مٹھی بھر دل کا ایک بڑا سا ٹکڑا میاں صاحب نے ہتھیا لیا اور ایک اجنبی نے دل کے اس ٹکڑے پر ایسا قبضہ جمایا کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا ،خود آئے سو آئے اپنے ساتھ ساتھ ما شاء اللہ تین عدد اولادوں کو بھی ساتھ لے آئے تب پتہ چلا کہ اوہو یہ اولاد تو دل کی سب سے تگڑی مکین ثابت ہوئی لیکن وہ طاقتور اولاد بھی دل کے باقی مکینوں کو بے دخل نہیں کرسکی وہ سب میرے دل کے الگ الگ ٹکڑوں میں اسی طرح آباد رہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اب بھائیوں کی بھی شادی ہوگئی بھابیاں آئیں تو دل نے ان کو بھی خوش آمدید کہہ دیا ان کے ساتھ ساتھ ان کے بچے بھی آتے گئے اور چپکے چپکے میرے دل میں سماتے چلے گئے،ان سب کی خوشی میری خوشی اور ان سب کا غم میرا غم،کبھی لبوں سے ایسی دعا ہی نہیں نکلی کہ جس میں میں اپنے دل کے ٹکڑوں کو بھول جاؤں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اس موضوع پر دوسری خواتین سے بھی آراءلوں گی کہ کیا سب عورتیں ایسا ہی محسوس کرتی ہیں ؟

لیکن وقت اتنی تیزی سے گز ر گیا کہ بچوں کی شادی کا وقت آگیا اور ایک پیاری سی ،خاموش سی ،معصوم سی لڑکی بہو بن کر ہمارے گھر میں آگئی ۔لوبھئی اب دل کو وسعت تو دینی ہی تھی ناں ، وہ جو ہمارے بیٹے کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی تودل کے ایک ٹکڑے کا مالک تو اسے بننا ہی تھا سواب وہ بھی میرے دل میں بستی ہے اس کے بغیر بھی مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔

پھر الحمداللہ میرے دل کا سب سے پیارا مکین میری معصوم سی پوتی بھی آگئی اور ایسے دھڑلے سے آئی کہ آج کل میرے دل پر اس کی ہی حکومت ہے اسے کسی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں پڑی خود بخود وزیر اعظم بن بیٹھی ہے اور وزیر اعظم بھی ایسا سخت گیر کہ اس سے پوچھے بغیر کسی سے ملنے کی اجازت بھی نہیں ،اپنے آپ میں ایسا مصروف رکھتی ہے کہ کہیں نظر اٹھانے کا دل بھی نہیں چاہتا۔ اللہ تعالی نے مجھ پر مزید کرم کیا اب ایک نئی بہو مزید میرے دل میں جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس میں کامیاب ہوتی بھی نظر آرہی ہے۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ بھی میرے دل کے بقیہ مکینوں کی طرح ہمیشہ شادوآباد رہیں اور ہم سب کی خوشیوں میں اضافے کا باعث بنے۔

کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ شاید ہر عورت کے دل کے اتنے ہی ٹکڑے ہوتے ہوں گے، مرد بھی بلا شبہ اپنے رشتوں سے اسی طرح محبت کرتے ہوں گے لیکن بس ایک بات بہت اہم ہے کہ ہوسکتا ہے ہر مردوعورت کے دل کے اتنے ہی ٹکڑے ہوں ،ہر انسان کے دل میں رشتوں کی محبت قدرتی طور پر اللہ تعالی نے ڈالی ہے لیکن ان دل کے ٹکڑوں کو سنبھالنا اتنا آسان نہیں ہوتا کبھی صبر کرکے تو کبھی برداشت کرکے ، کبھی ضبط کرکے تو کبھی ناگوار باتوں کو نظر انداز کرکے ، کبھی خاموش رہ کر تو کبھی بول کر ان رشتوں کو سنبھالنا پڑتا ہے ، کبھی کبھی دل میں رہنے والے بھی جانے انجانے میں دل دکھا جاتے ہیں سنبھالنا پڑتا ہے ، دل میں رہنے والوں کو اتنی آسانی سے دل سے نہیں نکالا جاتا۔

"وار بھی دل پہ اور راج بھی دل پہ "

سنا تو ہے لیکن کبھی کبھی اس سے پالا بھی پڑ جاتا ہے ، جھیلنا بھی پڑتا ہے اور بھولنا بھی پڑتا ہے ، دل تک جانے والے راستے کو اپنوں کے لئے سجا کر بھی رکھنا پڑتا ہے ، دل کے حقدار اتنی آسانی سے قابو نہیں آتے کبھی آنسوؤں سے آبیاری کرنی پڑتی ہے تو کبھی خون دل دینا پڑتا ہے ورنہ یہ سارے مکین آہستہ آہستہ ہمارے دل کو ویران کر کے چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ سکھ چین سب رخصت ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے دل کے ساتھ ساتھ آپ سب کے دل بھی ہمیشہ شادوآباد رکھے اور ہمارے دل کے ہر ٹکڑے کے یہ پیارے پیارے مکین سلامت رہیں اور اسی طرح ہمارے دل میں خوشیاں بکھیرتے رہیں۔(آمین)