یورپ کی وجہ تسمیہ

July 26, 2021

تحریر:سردار عبدالرحمٰن خان ۔۔۔بریڈ فورڈ
اکثر مقامات، اداروں، اشیاء، عمارات اور ادویات کے ناموں کے پیچھے کوئی نسبت، کوئی حوالہ یا کسی قسم کا تعلق ہوتا ہے اکثر انسانوں کے اسماء بھی بامعنی اور کسی حوالے سے سوچ سمجھ کر رکھے جاتے ہیں، الفاظ کی بھی اپنی سرگزشت ہوتی ہے، الفاظ بنتے ہیں، بگڑتے ہیں، مشتمل ہوتے ہیں اور پھر متروک ہو کر غائب ہوجاتے ہیں، اسی طرح کئی ممالک، علاقات اور شہروں کے ناموں کی بھی عموماً وجہ تسمیہ ہوتی ہے، مثلاً پاکستان کو لیجئے اس کی تخلیق سے پہلے ہی اس کا نام ان مقامات کے ناموں کی نسبت سے رکھا گیا جن کے مرکتب سے یہ معرض وجود میں آیا، اسی پاکستان کے اندر اگر چند شہروں کے ناموں پر غور کریں تو ان کی بھی وجہ تسمیہ معلوم ہوجاتی ہے، مثلاً گجرانوالہ اور گجرات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نام یہاں کے رہائشی قبیلہ یعنی گوجر برادری کے نام سے موسوم ہیں، پھر کچھ سڑکیں، شاہراہیں، میدان، تفریحی مقامات اور درس گاہیں کسی مشہور شخصیت کے ساتھ منسوب کی جاتی ہیں مثلاً لیاقت باغ، قذافی اسٹیڈیم، جناح پارک، شاہ فیصل مسجد، وکٹوریہ ہوٹل وغیرہ ہر ملک میں آپ کو اس ایسی مثالیں ملیں گی،اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لفظ یورپ کہاں سے آیا ہے، کہاں سے نکلا ہے، اس لفظ کی سرگزشت کیا ہے، سب سے پہلے یہ تو ظاہر ہے کہ یہ لفظ براعظم یورپ کا نام ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ یورپ کی حدود کیپ سینٹ ونسنٹ پرتگال کے ساحل سے لے کر آرکٹک کے جنوب سے میڈیٹریرین کے مشرق میں کوکوسیس اور یورل کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے، یہ براعظم انتہائی پسماندگی سے ترقی کرتا ہوا دنیا میں بہت خوش حال اور امتیازی خصوصیت کا حامل بن گیا، اس براعظم میں کوئی صحرا نہیں، ایک پہاڑی سلسلہ ہے جس کو ایلپش کہا جاتا ہے اور اس کا علاقہ اکثر زرخیز اور میدانی ہے، آبادی 750 ملین ہے۔یورپ کی وجہ تسمیہ ایک غیر حقیقی ،ایک تصوراتی واقعہ یا قصے سے منسوب کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ لفظ یورپ چھٹی صدی قبل از مسیح میں اس علاقے کیلئے استعمال کیا گیا جو یونان کے شمالی میں واقع تھا، اس کی کوئی متفقہ حدود نہیں تھیں، پہلے پہلے یہ رومن ایمپائر کے ساتھ منسوب ہوا، پھر عیسایت کے ساتھ جس کی حدود ایشیاء اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں، یورپ کے بارے میں روایتی قصہ کہانیوں میں کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں اس علاقے کے لوگ ایک خدا پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ کئی خودساختہ اور خیالی خدائوں کے پرستار تھے، ان کے کچھ اَن دیکھے خدا مختلف صفات کے حامل تھے، اسی طرح اس زمانے کا ایک روایتی خدا یا معبود جس کا زی او س نام تھا، فونیشیا کے سمندر کے ساحل سے چہل قدمی کرتے ہوئے مناظر دیکھ رہا تھا، اچانک اس کی نظر ایک حسین شہزادی پر پڑی جو غسل آفتاب سے فارغ ہوکر کھیل اور موج مستی میں اٹھکھیلیاں کر رہی تھی، زی اوس اس حسین اور جمیل شہزادی سے ملنے کے شوق کی گرفت میں آگیا اور اس نے اپنے آپ کو ایک بیل کی شکل میں تبدیل کرکے نخرے سے ٹہلتا ہوا شہزادی کے پہلو میں جاکھڑا کیا، شہزادی ششدر رہ گئی، اس شہزادی کا نام یوروپا تھا شہزادی یوروپا کو یہ بیل بہت دلکش لگا اس نے پیا ر سے اس بیل کے گلے میں ایک گلدستے کا ہار پہنایا، یوروپا اس عجیب الخلقت بیل کو دیکھ کر مسرت سے حیران اور مسحور ہوگئی، پھر سرعت سے اس بیل کی پیٹھ پر سوار ہوگئی، ماضی بعید کے ایک شاعر ’’اوود‘‘ کے مطابق بیل شہزادی کو پیٹھ پر بٹھا کر تیرتا ہوا سمندر کی لہروں کو چیرتا ہوا کریٹ نامی جزیرے میں جا پہنچا، یہاں پہنچ کر یوروپا اور زواس نے شادی کرلی ،اس محبت کش شادی سے ان کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام مینوز رکھا گیا جو مستقبل میں جاکر بادشاہ بنا، اس تصوراتی کہانی میں ایک ناممکن جوڑے کی اچانک ملاقات اور محبت کے نتیجے میں ایک براعظم کا نام، ایک بادشاہ اور ایک تہذیب وجود میں آئے، یوروپا کا نام استداد زمانہ کے ساتھ تبدیل ہوکر صرف یورپ رہ گیا۔ آج اکیسویں صدی میں اس کہانی اور یورپ کی اس انوکھی وجہ تسمیہ کو ماننا مشکل نظر آتا ہے۔کئی صدیاں پہلے یورپ بہت پسماندہ تھا۔ جب دنیا کے کئی حصے مقابلتاً مہذب تھے۔ یورپ کے لوگ غاروں میں رہتے تھے۔ جب دنیا ترقی کی طرف رواں دواں تھی تو یورپ حجری دور سے گزر رہا تھا، لیکن اس براعظم کی ایک خاص حیثیت ہے۔ جب ترقی کرنے کا وقت آیا تو یورپ نے باقی دنیا پر سبقت لے لی۔ ہر میدان میں آگے نکلنے لگا۔ ہر میدان میں اپنے جوہر دکھائے۔ لٹریچر، موسیقی، فلسفہ، آرٹ، سیاست، سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت، سامان حرب، انڈسٹری، بحری جہازوں کی تعمیر، قانون، آئین سازی، تعلیمی ادارے، ایجادات اور دوا سازی وغیرہ۔ یورپ تضادات کا مجموعہ بھی ہے۔ یورپ کی تاریخ پر لاکھوں کتابوں میں بھی پورا تبصرہ ممکن نہیں۔ اس براعظم کے اندر خونخوار جنگیں ہوئیں۔ برادریوں کی جنگیں بھی ہوئیں اور یورپین مسالک کی ایک دوسرے سے ہزاروں سالوں تک بھی جنگیں ہوتی رہیں۔ مذہبی جنون بھی رہا اور الحاد بھی رہا۔ پاپائے روم کی عزت ایک طرف اور موروثی بادشاہوں کا احترام دوسری طرف، جمہوریت کا دعویٰ بھی اور بادشاہت کا احترام بھی، مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز اور انجام بھی یورپ سے ہوا۔ دنیا کی دو بڑی تباہ کن جنگوں کا تنازع بھی یورپ سے شروع ہوا، دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر مقامی آبادیوں کو غلام بناکر نوآبادیاں قائم کرکے ان کے حقوق غصب کیے، انسانوں کی منڈیاں لگاکر خریدو فروخت کرنے والے بھی یورپین ہی تھے اور آج انسانی حقوق کے چارٹر بناکر عدالتیں لگانے والے بھی یورپین ہیں، امریکہ، لاطینی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ پر قبضہ کرکے لوکل آبادیوں کو تباہ کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے نئے ممالک کو جنم دینا بھی یورپین کے کارنامے ہیں، یورپین آپس میں لڑتے ہیں لیکن دوسروں کے خلاف اتحاد بنالیتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ یورپ بھی بتانا چاہتے لیکن اپنی انفرادیت بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ امن پسند فلاسفر، دانشور، سخن ور اور مصلح یورپ بھی پیدا کیے ہیں اور ہٹلر اور موسولینی کو بھی جنم دیا ہے۔ انسانی حیات کو طوالت بخشنے اور بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات بھی ایجاد کی ہیں اور موت کی گھاٹ اتارنے کا سامان حربب اور زہریلے گیس بھی تیار کیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ کے اندر ایک ایک میل کے اندر دو، تین چرچز عبادت کے لیے موجود تھے۔ آج وہ چرچز ویران اور خالی بھائیں بھائیں کررہے ہیں یا گوداموں میں تبدیل کیے جارہے ہیں لیکن پھر بھی دوسرے براعظموں کے لوگ یورپ کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ یورپ ان کے لیے ایک مقناطیس ہے۔ ہوائی جہاز، بحری جہاز، بوٹس اور پیدل چل کر یورپ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اپنے حالات، اپنے کلچر، اپنے ادارے، اپنی معاشرت، اپنا لباس، اپنی زبان کو نہ بدل سکے، نہ عزت دے سکے، اس لیے یورپ کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ مقابلہ نہیں کرسکتے تو نقالی ہی سہی۔ انگریزی محاورہ ہے، اگر آپ شکست نہیں دے سکتے یا مقابلہ نہیں کرسکتے تو شمولیت حاصل کرلو۔ یورپ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ایک قابل رسک اور طاقتور براعظم ہے۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ کچھ بھی ہو۔ یورپ یورپ ہی ہے۔