طالبان کا نیا ’’ایڈیشن‘‘ کیسا ہوگا؟

July 28, 2021

پہلے ایڈیشن میں طالبان قیادت راج نیتی کے اسرار و رموز سے ناآشنا، دینی درسگاہوں سے براہِ راست بزورِ بندوق افغانستان کی مسندِ اقتدار پر قابض ہوئی۔ اِس تجربے کے نتائج دُنیا کی نظر میں متنازع رہے۔ ریکارڈ کی بات ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے چینی حکومت مخالف تنظیموں کے ارکان افغانستان سے قیدی بنائے۔ دوسرے ہمسایہ ممالک بھی طالبان کے طرزِ حکومت سے نالاں رہے۔ پاکستان تو 1979سے زخم خوردہ ہے۔ افغان پناہ گزینوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ہو یا اندرونی فرقہ واریت، پاکستانی حکومتیں اور رائے عامہ طالبان سمیت ہر افغان حکومت سے شاکی رہی۔

طالبان حکومت کے دُوسرے ایڈیشن کی توقع میں اُن کے ترجمان، سی این این اور دُوسرے عالمی نشریاتی اداروں پر دُنیا کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ وہ بزورِ طاقت کابل کو فتح نہیں کریں گے، کسی دُوسرے ملک سے منسلک تنظیم کو اپنے ہاں پناہ نہیں دیں گے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے ذریعے دوسرے فریقین کو تحفظ اور اقتدار میں شریک بنائیں گے۔ ایک طرف طالبان کی نئی قیادت عالمی رائے عامہ کے شکوک و شبہات رفع کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دُوسری طرف اپنے پیروکاروں کو یہ یقین دلانے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہے کہ اقتدار حاصل ہونے پر اُن کے نظریات اور طرزِ حکومت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔

طالبان کی قیادت پہلے ایڈیشن کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور میڈیا کے بارے میں حساس سہی مگر فرنٹ لائن پر جنگ لڑنے والے پیروکار ایک مخصوص سماجی اور عسکری سوچ کے حامل ہیں۔ وہ نہ باقاعدہ فوج کے تربیت یافتہ ہیں اور نہ فوجی ڈسپلن کے پابند۔ اگر طالبان کی قیادت اور پیروکار آئندہ ایڈیشن میں حکومت سنبھالنے سے پہلے طرزِ حکمرانی کی جزئیات اور تفصیلات پر متفق ہو جائیں تو مستقبل میں اندرونی کشمکش کا احتمال کم ہو جائے گا، ورنہ ’’ابو جندل‘‘ کا مقام گواہ ہے کہ اسلامی تاریخ خارجی فتنوں سے بھری پڑی ہے۔

طالبان دُنیا کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 8مئی کو ہزارہ برادری کی بچیوں کے اسکول پر حملے سے ہونے والی 69ہلاکتوں اور پہلوانی کے ایک اسکول پر جارحیت میں اُن کا کوئی ہاتھ نہیں مگر عالمی میڈیا کی اُنگلیاں اُن کی طرف اُٹھ رہی ہیں۔ مخالف گروہ قائل نہیں ہو رہے اور مختلف دھڑے جن کی سربراہی احمد مسعود، عطا محمد نور، اسماعیل خان اور عبدالرشید دوستم کر رہے ہیں، اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک پُرامن اور خوشحال افغانستان کے لئے طالبان کا اِن گروہوں سے بقائے باہمی کا سمجھوتہ کرنا ضروری ہو گا۔قوم کی اجتماعی ترقی اور معاشی خوشحالی، نظریاتی تبدیلی کا سفر آسان کر دیتی ہے۔

افغانستان کے معاشی مستقبل کے حوالے سے میری خوش گمانی اپریل 1996میں شروع ہوئی۔ راقم الحروف کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن میں تعیناتی کے دوران چیئرمین جناب انعام الحق مرحوم اور ترکمانستان میں پاکستان کے سفیر طارق عثمان حیدر کے تعاون سے بذریعہ سڑک کپاس درآمد کرنے کی پلاننگ میں شامل رہا۔ طالبان ابھی کابل پر قابض نہیں ہوئے تھے مگر ہرات اور قندھار سے گزرتا ہوا چمن بارڈر کراسنگ تک پہنچنے کا راستہ اُن کے کنٹرول میں تھا۔ اُس وقت سلمان فاروقی سیکرٹری کامرس، احمد مختار مرحوم وزیر تجارت اور وزیر داخلہ مرحوم جنرل نصیر اللہ بابرکی بھرپور تائید سے پاکستان معمولی اخراجات کے ساتھ اعلیٰ کوالٹی کی کپاس درآمد کرنے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان اور طالبان کو باہمی فائدہ پہنچا۔ یہی وجہ تھی کہ بطور سیکرٹری کامرس کامیاب کوشش کی کہ 2010کے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں بذریعہ افغانستان وسطی ایشیاء اور ایران جانے والے سب راستوں سے پاکستان کو رسائی کی سہولت حاصل ہو۔

اگر آئندہ دور میں طالبان نے معاشی ترقی کو ترجیح دی تو حالات اُن کی توقع سے بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔ TAPIمنصوبے کے تحت، ترکمانستان سے براستہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کو گیس سپلائی کی جائے گی۔ 1420کلو میٹر پر محیط 56انچ قطر کی پائپ لائن کی لاگت کا تخمینہ دس بلین ڈالر ہے۔ منصوبے سے افغانستان میں لوگوں کو روزگار اور 180ملین کیوبک میٹر گیس دستیاب ہونے کے علاوہ راہداری کی مد میں ایک معقول رقم مستقل طور پر ملتی رہے گی۔ اِس کے علاوہ CASAپروجیکٹ کے ذریعے کرغزستان اور تاجکستان سے ترسیل ہونے والی 1300میگا واٹ میں سے 300میگا واٹ بجلی کے علاوہ راہداری کی مد میں 400ملین ڈالر مستقل دستیاب ہوں گے۔ اِن دونوں زیرِ تکمیل منصوبوں کے لئے رقم ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک فراہم کر رہے ہیں۔ اگر طالبان نے چین کا اعتماد حاصل کر لیا تو سی پیک منصوبہ، ساؤتھ ایشیا اور وسطی ایشیا کو بذریعہ افغانستان اِس طرح منسلک کر دے گا کہ افغانستان معاشی طور پر ہمیشہ کے لئے خوشحال ہو جائے گا۔

جہاں تک طالبان حکومت کے دُوسرے ایڈیشن میں کھلاڑیوں اور خواتین کے حقوق میں مزید گنجائش کا تعلق ہے، قارئین استنبول قونصلیٹ میں ہمارے ایک ایماندار اور نیک اہلکار کے قصے سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک روز قونصلیٹ میں ترک پولیس افسر نے مجھے اُس اہلکار کے ہمسایوں کی شکایت دکھائی کہ وہ اہلکار دفتر آنے پر گھر کو باہر سے تالا لگا دیتا ہے۔ ہمسایوں کو خدشہ تھا کہ گھر میں قید کی جانے والی اکیلی خاتون شاید تپ دق کی مریضہ ہے جو مستقل کھانستی رہتی ہے۔ اہلکار سے وضاحت طلب کی تو اُس پرہیزگار شخص نے جواز پیش کیا کہ اُس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اور وہ گھر کوباہر سے قفل لگا کر ہی اپنی بیوی کو اِس آزاد خیال معاشرے میں محفوظ سمجھتا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی، تپ دق کے خدشے اور صحت کے لئے تازہ ہوا کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے اُسے سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ جواب میں اُس نے مہربانی فرماتے ہوئے حامی بھری ’’سر، میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ آئندہ باہر سے تالا نہ لگاؤں اور فجر کے وقت جب باہر اندھیرا ہو تو بیوی کو ہوا لگوانے کے لئے، پانچ دس منٹ کے لئے باہر لے جایا کروں‘‘۔ اب علم نہیں کہ طالبان حکومت اپنے دُوسرے ایڈیشن میں عورتوں کے لئے کتنی گنجائش پیدا کرے گی۔