دال روٹی سے گریٹ گیمز تک

August 03, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

دنیا بھر کے فلاسفروں، سیاسی دانشوروں اور امنِ عالم و سلامتی کے بین الاقوامی اداروں کو درپیش یہ چیلنج الارمنگ ہوتا جا رہا ہے کہ انسانی تہذیبی ارتقائی عمل، جو گزشتہ چند عشروں میں صدیوں کی ترقی پر غالب آ گیا ہے، کو کیونکر تحفظ دیا جائے؟ یہ صورتحال تب بنی ہے جب ادھورے عالمی امن اور آزادی و خود مختاری اور حقِ خودارادیت کے تحفظ کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی آئیڈیل صورتحال بھی تشکیل پا چکی ہے۔ دریافت علوم کے اطلاق اور ظہور پذیر علوم و ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی انسانی زندگی کی مطلوب آسودگی کا حصول آسان تر ہوتا جا رہا ہے لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اس کا رخ تباہی و بربادی کی طرف موڑنے کے لئے ممالک، آباد خطے اور سات ارب نفوس کی دنیا کو (انسانی حوالے سے) مینج کرنے والے تنگ نظر و متعصب اور نسلی و مذہبی غلبے کے جنونی اور طاقتور ملکوں کے حکمراں اور ان کے معاون عالمی و علاقائی سیاست کے مقتدر حلقے و تنظیمیں انسانی حقوق اور اجتماعی عالمی سماجی و سیاسی انصاف کی بنیاد پر تمام ممالک کو دل سے امن و استحکام و خوشحالی کا یکساں حقدار ماننے کے لئے کسی طور پر تیار نہیں۔ اس کو ان کے علانیہ تسلیم کرکے عملاً اس سے منکر ہونے کی صورت یوں نکالی گئی ہے کہ انہوں نے اپنی سرحدوں سے باہر اور دور دوسرے ممالک میں اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کو ’’عالمی انسانی بنیادی ضروریات‘‘ کے ایجنڈے پر حاوی کرکے عالمی انسانی ضروریات کی قومی اور بین الاقوامی کوششوں کا رخ اپنے پوشیدہ اور اصلی ایجنڈے کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس کے حصول کے لئے وہ آخری حد تک جانے کی راہوں پر جانے کی تیاری میں ہیں۔ اس سے علوم کے اطلاق اور ظہور پذیر معجزاتی انسانی کامیابیوں اور اس ’’پوشیدہ ایجنڈے‘‘ میں تصادم کی کیفیت صرف پیدا ہی نہیں ہوئی بلکہ جنگ و جدل تک آن پہنچی ہے۔ مطلوب منفی سیاسی ضروریات کے لئے دنیا کی تقسیم دَر تقسیم کا عمل تصادم کے خطرات کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ عالمی اجارہ دار قوتوں کو نئی پُرامن اقتصادی قوتوں اور نحیف اور محروم ممالک کی تیزی سے ہوتی ترقی میں برابر کی شرکت بھی کسی طور گوارا نہیں بلکہ ان کے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی ابتدائی اور باہمی کوششوں سے ان کا حسد عود کر باہر آ رہا ہے۔ یہ صورت حال اس مطلوب بنیادی عالمی امن کے لئے شدید خطرہ ہے جو جاری ارتقاء کی روانی سے بھی زیادہ لازم ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اسلحے کی نئی دوڑ زور شور سے جاری۔نئے دریافت علوم کا بڑا اطلاق اسی مہلک غلبے کی طرف ہو رہا ہے۔ زیادہ تباہی کو نادید بتانے اور لمحوں میں انسانی زندگی کو معطل کرنے کی اختراعی جنگیں ’’فورتھ اور ففتھ جنریشن وار‘‘ کے ناموں سے موجود نئی اور آنے والی نسلوں سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ دنیا کس طرف چل پڑی ہے اور آنے والی انسانی نسلوں کو کیا کچھ دینے کا سامان کس دھڑلے سے ہو رہا ہے۔

بہت سیدھا اور واضح سوال ہے کہ آزاد عالمی منڈی میں مقابلے کی مکمل قابلِ قبول فضا میں سی پیک بھارت اور اس کے نئے فطری اتحادی سرپرستوں کے لئے کیسے خطرہ بن گیا؟ جبکہ CONNECTIVITYچین و پاکستان کے باہمی اقتصادی مفادات کا منصوبہ تو ہے ہی، خطے کے چھوٹے بڑے، غریب اور مستحکم سب ہی ملکوں کی اس میں شمولیت اور ’’دعوت عام‘‘ سے بڑھ کر عالمی امن و استحکام، تخفیف غربت اور خوشحالی میں اضافے کا اس سے بہتر ابھی تک تو کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ اگر افغانستان میں امریکہ اور بھارت کے ’’قومی مفادات‘‘ ہیں اور اس پر ان کی اس غریب و برباد ملک میں موجودگی لازم ہے تو کیا میکسیکو، کیوبا، نیپال میں چین و پاکستان کے ’’قومی مفادات‘‘ کی نشاندہی ہضم ہوگی؟

اب تک کے امریکی بھارتی رویے سےاس کا جواب ہے ’’ہرگز نہیں‘‘۔ جیسے ہم نے جنگ میں شرکت یا سہولتوں کی فراہمی کے لئے تلخ تجربے کی روشنی میں ’’ہرگز نہیں‘‘ کی پوزیشن لی اور ببانگ دہل امن اور خوشحالی کی ہر کوشش میں کسی بھی فورم پر کسی بھی ملک کے ساتھ علانیہ شامل ہیں۔جو غربت 20سالہ وار آن ٹیرز میں امریکہ، بھارت، خود افغانستان اور پاکستان کے لئے پیدا ہوئی اس سے کوئی سبق لینے کی بجائے، بھارت جس طرح آزاد کشمیر کو اپنا علاقہ بنا کر اپنے سخت پریشان حال عوام کو امکانی جنگی کامیابیوں کی لوری سنا رہا ہے، ’’ گریٹ گیم‘‘ کے نام پر وہ کتنا خطرناک ابلاغ کررہا ہے، بھارتی سیاسی دانشوراور پیس اینڈ سکیورٹی اسکالرز کو کوئی ہوش ہے کہ ان کا ملک دو ایٹمی ہمسایوں کے مکمل پرامن اور خوشحالی کے ضامن منصوبے کو چیلنج کرکے اب تک کتنا خسارہ اٹھاچکا ہے حتیٰ کہ متنازعہ علاقہ کھونے کا بھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)