پیپلز پارٹی کا نامعلوم رابطہ کار

August 05, 2021

میں نے پیپلز پارٹی کی تین بڑی شخصیات پر کتابیں لکھنے کا برضا و رغبت کام کیا ہے،جن میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر ’’بے نظیر شہادت‘‘ ،سیدیو سف رضا گیلانی پر’’ولادت سے وزارتِ عظمیٰ تک‘‘جبکہ نصرت بھٹو پرمیری کتاب ہے’’ مادرِ جمہوریت ‘۔ اس سے پہلے کوئی کتاب محترمہ پر موجود نہیں تھی۔اِن تین کتابوں کی تحقیق کے دوران کچھ ایسے حقائق، معلومات اور راز بھی میرے سامنے آئے جن کا اپنی کتابوں میں مصلحتاًتذکرہ نہیں کیا تھا کیونکہ اُس وقت میں سمجھتا تھا کہ یہ سب سچ نہیں ،اب جبکہ شرح صدر ہوا تو بات کر رہا ہوں۔ امریکہ کوسفید ہاتھی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو خود سندھ سے تعلق رکھتے تھے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے، اس لئے اپنا سیاسی مرکز لاہور کوبناتے ہوئے پی پی کی بنیاد لاہور میں رکھی۔ شایداسی وجہ سے 2013 تک پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جڑیں گہری رہیں۔آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں اُس نامعلوم رابطہ کار کی جسے بے نظیر بھٹو ذہین اور سراپا مزاحمت ہونے کے باوجود ہمیشہ اہمیت دیتی رہیں ،یہ نامعلوم رابطہ کار عوام کا نبض شناس ہے۔یہ نامعلوم رابطہ کار صوبوں اور وفاق کی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتاہے،اس نامعلوم رابطہ کار کی بہت ساری خوبیوں کے علاوہ یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ پیپلز پارٹی سےبغیر کسی مفادکے تعلق قائم رکھے ہوئےہے لیکن فائدے حاصل کرنا بھی خوب جانتا ہے۔جب پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتو رابطوں کو تیزکرتا ہے ،قیادت کےلئےمفاہمت کا راستہ نکالتا ہے۔ اس نامعلوم رابطہ کار کا پیپلزپارٹی کے ساتھ تعلق بہت گہرا ہے۔ایک وقت تھا جب اُس کی پہچان عالمی قوتوں کےساتھ جڑی ہوئی تھی لیکن اُس کا حلقۂ احباب اُس وقت زیادہ وسیع ہواجب اُس کے نواز شریف کیساتھ اچھے تعلقات طاقتوروں نے دیکھے ۔میثاقِ جمہوریت کی آڑ میں پیپلزپارٹی سے پرویز مشرف کیڈیل کرانے میں بھی اُس کا بہت بڑا کردار تھا لیکن ناجانے کیوں پھر ’’خودکش‘‘ حملے نے حالات بدل کر رکھ دیے۔ یہ کردار کبھی بے نقاب نہیں ہوا کیونکہ اُسے ذاتی شہرت کا لالچ نہیں ۔یہ نامعلوم رابطہ کار نہ صرف کامیاب بزنس مینوں، کامیاب صحافیوں اور طاقتوروں سے تعلق بنانے خوب جانتا ہے بلکہ اِن کامیاب شخصیات کے رشتہ دار بھی اُس کے حلقۂ احباب میں شامل ہوتے ہیں۔جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی یہ نامعلوم رابطہ کار بہت متحرک رہا۔ ماضی قریب میں مَیں نے ایک ایسی تقریب اپنی آنکھوں سے دیکھی جس میں ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ تقریب کا مہمان اور میزبان یہی نامعلوم رابطہ کار ہے۔ زرداری صاحب جب جیل میں تھے تو یہ نامعلوم کردار بہت زیادہ ہوشیاری سے اُنہیں پیغامات دے اور لے رہا تھا ۔ پیپلزپارٹی کے حلقے اُن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اُسے ہمیشہ مخلص پایا ہے۔ آصف علی زردار ی اور بلاول بھٹو زرداری لاہور،کراچی یا پھر اسلام آباد میں ہوں، اُن سے ملاقات وہی کر سکتا ہے جس کو یہ صاحب اجازت دیں یا جس کی ملاقات کا بندوبست یہ نامعلوم رابطہ کار کروا دے۔یہ نامعلوم رابطہ کار اتنا طاقتور ہے کہ بعض دفعہ پیپلزپارٹی کے بیٹ رپورٹر بھی حیران پریشان ہو جاتے ہیں کہ ُاس پر اِس قدر اعتماد کی وجہ کیا ہے حالانکہ کسی بھی جماعت کے محنتی بیٹ رپورٹر اس جماعت کے ایکسپرٹ ہوا کرتے ہیں لیکن جب میں نے اُن رپورٹرز سےاس نامعلوم رابطہ کار کے بارے جاننے کی کوشش کی تووہ ماشاءاللہ اس کردار سے ناواقف پائے گئے۔ اس نامعلوم رابطہ کار کو پیپلزپارٹی کا بہترین پلانر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔یہ نامعلوم رابطہ کار پاکستانی شہریت رکھتا ہے جس طرح جسمانی طور پر اسمارٹ ہے اس سے کہیں زیادہ ذہنی طور پراسمارٹ ہے ۔یہ کبھی پیپلزپارٹی کے لئے سیکورٹی رسک ثابت نہیں ہوا۔ اس پر اعتماد روزبروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔اس نامعلوم رابطہ کار کی کبھی یہ خواہش نہیںہوئی کہ یہ پیپلزپارٹی کے نام پر مال بنائے یا پھر نام کمائے۔ اس کردار کی جڑیں کئی اور جگہوں پر بھی جڑی ہوئی ہیں۔ اسی لئے یاروں کے یار ہیں جس کے ساتھ کھڑے ہوں تو کھڑے رہتے ہیں جس کے ساتھ کھڑے نہ ہونا ہوتو کبھی اسے جھوٹی تسلیاں نہیں دیتے۔

اس نامعلوم کردارکی اگر لغوی یا لفظی تعریف کروں تو یہ پیپلزپارٹی کے مقاصد پورے کرنے کے لئے کوئی رخ یا چہرہ بھی اختیار کرنے کے لئےہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ نفسیاتی طور پرمضبوط ہے لیکن بعض دفعہ چھوٹی باتیں بھی دل پر لے لیتا ہے۔یہ غرور یا تکبر کا شکار بھی نہیں ہوتا مگر بعض دفعہ اپنی ذات کوحدسے زیادہ پسند کرنے لگ جاتاہے ۔یہ جئے بھٹو کے سحر میں نہیں بلکہ نظریہ کی طاقت پر یقین رکھتاہے۔کئی بار پیپلزپارٹی کے کچھ عناصر نے اس کو الگ کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ کی طرح ناکام ہوئے۔ یہ نامعلوم رابطہ کار پینترےاور تاویلات تراشنے پر نہیں بلکہ نتائج پر یقین رکھتا ہے۔اس نامعلوم رابطہ کار سے اب کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی طرح چینی اور امریکی قیادت کو بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے تیار کرے۔ یہ نامعلوم کردار اخلاقی ہتھیاروں اور ذاتی تجربات کے ذریعے اداروں کی پیپلزپارٹی کے ساتھ ڈیل کرواتا ہے۔ زرداری صاحب جیل میں تھے تو اُنکی ضمانت اسی کردار کے ذریعے عمل میں آئی۔ طاقت کے مراکز میں مذاکرات کے دوران طوالت کا حامی بھی نہیں ہوتا کیونکہ زردار ی صاحب کی شخصیت کی طرح ہاں یا نہ کا قائل ہے۔ البتہ جلدی میں معاملات کو سبوتاژ کرکےکبھی نہیں لوٹا۔اجنبیوں سے دوستی یہ نامعلوم رابطہ کار کم عمری سے کر رہا ہے، لاہور کے دو بڑے ہوٹلزکےٹیبل آج تک اِس دوستی کے اثرات دکھا رہے ہیں۔ اس نامعلوم رابطہ کار کی تمام سٹرکوں کے راستےطاقت، طاقت اور صرف طاقت ور حلقوں کی جانب جاتے ہیں۔یہ نامعلوم کردار جزیروں کا مالک تو نہیں لیکن اپنے حصہ داروں کو جزیروں کا مالک ضروربنا دیتا ہے اور پھر ان سے اپنے جاری کاروبار میں شیئر ڈلواتا ہے۔یہ نفرتوں کو نہیں محبتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ اسی نامعلوم کردار کی وجہ سے آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا موقع مل رہا ہے۔