مخلوط نظامِ تعلیم کا شرعی حکم (گزشتہ سے پیوستہ)

September 10, 2021

تفہیم المسائل

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعتِ مُطہرہ نے اجنبی مردوعورت کے درمیان جو فصیل قائم فرمائی ہے ، اُسی میں دونوں کی عافیت ہے ۔پس آپ کے مسئلے کے حل کی بہتر صورت یہ ہے :

(1) اگر خواتین کے الگ اسکول،کالج ، یونیورسٹیاں اورپیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے ہوں ،تولوگ اپنی بیٹیوں کوان میں داخل کریں ۔

(2)اگرکسی خاص شعبے میں طالبات کے لیے الگ ادارے نہ ہوں توکلاس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی نشستیں الگ قطاروں میں اور بیچ میں پارٹیشن بنادی جائے، لیکن کیفے ٹیریا ،لائبریری اور لیبارٹری میں طالبات کا حصہ الگ ہو یا بیچ میں فصل ہو ،جیسے بعض پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کا حصہ الگ ہوتا ہے ،بعض ہوٹلوں میں فیملی والوں کے لیے طعام گاہیں الگ ہوتی ہیں ، بعض دعوتوں اور تقریبات میں بھی خواتین کا حصہ الگ ہوتا ہے ۔

(3)جن شعبوں کے لیے اہل خواتین اساتذہ دستیاب ہیں ،طالبات کے اداروں میں اُنہیں مُعلم مقرر کیا جائے ۔

(4)اگرکسی خاص شعبے کے لیے خاتون متخصص مُعلمہ یا پروفیسر دستیاب نہ ہو تو بامرِ مجبوری مرد استاذ پڑھالے ،مگر استاذ وطالبات کے درمیان فصل کے لیے بھی پارٹیشن لگائی جاسکتی ہے ۔

(5)بہتر ہے طالبات اُن شعبوں میں جائیں ،جن میں خواتین متخصصات دستیاب نہیں ہیں ،تاکہ اس شعبے کی کمی کو پورا کیا جاسکے ،جیسے شعبۂ تعلیم اور طب وغیرہ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk