میڈیا کو سانس لینے دیں

September 21, 2021

میڈیا اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت میڈیا سے نالاں نظر آتی ہے اور ہر دور کا میڈیا بھی حکومتی رویّے سے شاکی دکھائی دیتا ہے۔ تمام جماعتیں اپوزیشن کے دور میں چکا چوند کیمروں کے ذریعے ہی اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں لیکن وہی جماعتیں جب برسراقتدار آتی ہیں تو سب سے پہلے یہی روشنیاں گل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کی ساری جدوجہد ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ممکن ہوئی، میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز سے جس طرح تحریک انصاف کا امیج تشکیل دیا گیا اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ جناب عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کا سہرا بھی میڈیا کے سر ہے۔ ان کی خصوصیات اور وژن کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر ایسے ایسے قصیدے پڑھے گئے کہ قبل ازیںاور بعد ازیں ایسی مثال ملنا مشکل ہے لیکن پھر وقت کا پہیہ ایسا گھوما اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ وہی تحریک انصاف جو میڈیا کے ذریعے اقتدار تک پہنچی تھی، اسی میڈیا کے منہ پر پابندیوں کی ٹیپ چپکا رہی ہے۔ میڈیا کی معتبر آوازوں کو پیمرا کے ذریعے خاموش کرانے پر عالمی صحافتی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہیں اور اِس اقدام کو جمہوری رویوں کے خلاف قرار دے رہی ہیں۔ متعدد قائدین جن میں بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن بنفسِ نفیس صحافیوں کے احتجاجی کیمپ میں تشریف لائے۔ یادش بخیر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بھی احتجاجی کیمپ کی زینت بنے جن کی جماعت کے دورِ حکومت میں نجم سیٹھی جیسے سینئر صحافیوں کو جیل یاترا کرنی پڑی، روزنامہ جنگ پر ایسا کڑا وقت آیا کہ یہ اخبار محض دو صفحات تک محدود ہوگیا لیکن پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی قوت پاکستان پیپلز پارٹی کا آزادیٔ صحافت کے حوالے سے کردار نسبتاً بہتر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے میڈیا کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو، جناب آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کے متعلق کہی گئی منفی باتوں کے جواب میں حرفِ شکایت بھی زبان پر نہیں لایا گیا۔ بلاشبہ پاکستانی صحافت کے تمام نام محبِ وطن ہیں۔ ان کے نقطہ نظر یا اندازِ بیان سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اِس لئے میں پوری ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کے ساتھ یہ رویہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ جناب وزیراعظم جس شدومد سے ذرائع ابلاغ کی تربیت میں یکسو نظر آتے ہیں اس سے نصف توجہ مہنگائی اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں پر دیتے تو شاید عوام کے دکھوں کا مداوا ہو جاتا۔ وزیراعظم کو اپنے ارد گرد نظر ڈالنی چاہئے اور ایسے مشیروں سے ہوشیار رہنا چاہئے جو وزیراعظم کی توجہ اصل عوامی مسائل سے ہٹا کر نان ایشوز کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ مسائل کے حوالے سے حکومتی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ وزرا نے الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کو آگ لگانے کی باتیں کی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر جو ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ ہیں اور جن کی شخصیت پر کرپشن کا کوئی داغ بھی نہیں اُن کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ کیا حکمرانوں کوآئینی اداروں کے وقار کا احترام ہی ملحوظ خاطر نہیں۔ اگر غیرسنجیدگی کا یہی عالم رہا تو برسر اقتدار طبقے کو عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ حکومت کو یہ بات نہیں فراموش کرنی چاہئے کہ کسی بھی دور میں میڈیا کا گلا نہیں دبایا جا سکا۔ سنسر شپ اور اشتہارات کی آڑ میں بلیک میلنگ کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے سبق سیکھنا چاہئے، ایک زمانے میں سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دینے کے الزام میں پیپلز پارٹی کو غدار قرار دیا گیا لیکن پھر بھی بات چیت کے دروازے بند نہیں ہوئے، یہاں تک کہ میثاقِ جمہوریت ہوا، میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر جس جماعت کے خلاف سپریم کورٹ تشریف لے گئے پھر اُسی جماعت کے ساتھ پی ڈی ایم میں اکٹھے بھی ہو گئے۔ اب تحریک انصاف کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے دروازے کھولنا پڑیں گے۔ پکڑ لو اور مارو کی سیاست دفن کرنا ہوگی اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کی نمائندہ تنظیموں سے بات کر کے اِس اُلجھن کو سلجھانا ہوگا۔

اِرتحالات

گزشتہ چند ہفتوں میں پے در پے تین ایسے افراد اِس دنیا سے رخصت ہوئے جن کے جانے سے ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ اُن میں سب سے پہلا نام سید علی گیلانی کا ہے۔ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کے اُن عظیم رہنماؤں میں سے ایک تھے جو آزادیٔ کشمیر کے متعلق ایک واضح اور دوٹوک مؤقف رکھتے تھے۔ اُن کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ سید علی گیلانی ایک محبِ وطن کشمیری رہنما اور پاکستان سے محبت کا لازوال جذبہ رکھنے والی شخصیت تھے۔ اُن کی وفات سے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور پاکستان اپنے ایک مخلص اور بہترین دوست سے محروم ہو گیا ہے۔

گزشتہ دنوں ہی معروف صحافی ناول نگار اور تخلیق کار طارق اسماعیل ساگر بھی دارِ فانی سے دارالبقا کی طرف رحلت فرما گئے۔ آپ 70سے زائد کتب کے مصنف تھے۔ اُن کی تحریروں سے پاکستان سے محبت کی خوشبو آتی تھی۔ انہوں نے بعض ایسے ناول تخلیق کیے جن کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی۔وہ بلاشبہ اردو ناول نگاری کا ایک بڑا معتبر نام تھے۔ اُن کی وفات سے اردو صحافت ایک قابل صافی سے محروم ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ایک ماہر تعلیم، دانشور، سیرت نگار اور شاعر تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی نجی یونیورسٹیوں کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہے۔ کئی کتب کے مصنف تھے۔ وہ دنیا کے شور و غوغا سے دور تحقیق و تصنیف کے آدمی تھے۔ رحمتِ عالمﷺ کی سیرت پر وہ ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ کی وفات سے پاکستان ایک عظیم علمی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ اللہ کریم سب مرحومین کی مغفرت فرمائے اور اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔