بھوک کا خطرہ!

September 25, 2021

عالمی سائنسدان بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کو ایک خطرناک طوفان قرار دیتے ہوئے بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں 2030تک خوراک، توانائی اور پانی کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت تک عالمی آبادی 8ارب 30کروڑ تک پہنچ جائے گی جس کی وجہ سے خوراک اور توانائی 50فیصد اور صاف پانی کی ضرورت 30فیصد بڑھے گی جبکہ غیرمتوقع طور پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں مسائل کو شدید کر سکتی ہیں جس کے خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔ سائنسدانوں کے نزدیک اس مسئلے کا حل زرعی شعبے کی ترقی، غذائی پیداوار، پانی کے ذخائر میں اضافہ اور ماحول دوست توانائی کا حصول ہے۔ اس تناظر میں جہاں خوش قسمتی سے مملکت خداداد پاکستان کا شمار ایسی چند ایک سرزمینوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں ’’سونا اُگلنے‘‘ کی کہاوت غالب آتی ہے، چار موسم، مون سون کی گراں بہا نعمت اس پر آبپاشی کیلئے ہزاروں چھوٹے اور درمیانے ڈیم بنانے کے قدرتی ذرائع، دریا، ندی نالے، بہترین نہری نظام، ہر طرح کی زرعی پیداوار سبھی کچھ موجود ہے مگر پھر بھی اقوامِ متحدہ کے ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 6کروڑ سے بڑھ کر 7کروڑ 70لاکھ تک پہنچ چکی ہے، من حیث القوم یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے جبکہ کسی سربراہِ حکومت کی زبان پر آنے والے یہی الفاظ یقیناً اس ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں یہ صورتحال پائی جاتی ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں کسان کنونشن اور کسان کارڈ تقسیم کرنے کی تقریب سے اپنے خطاب میں خبردار کیا ہے کہ اگر آبادی اسی طرح بڑھتی رہی اور پیداوار کی شرح میں اضافہ نہ ہوا تو آگے چل کر ملک کو بھوک اور افلاس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم کا یہ حوالہ بھی بجا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ برس 40لاکھ ٹن گندم درآمد کرنی پڑی اور رواں سال بھی ریکارڈ پیداوار کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے۔ مزید برآں کپاس جیسی انتہائی اہم صنعتی و برآمدی جنس جس پر معیشت کا بڑا دارومدار ہے گزشتہ کئی برس سے انتہائی کم پیداوار دے رہی ہے حالانکہ سازگار قدرتی ماحول کے ساتھ ساتھ ملک میں زرعی شعبے سے متعلق وفاقی اور صوبائی سطحوں پر وزارتیں، سائنسی ادارے، جامعات، کسانوں کیلئے مائیکرو فنانس بینک، کھاد کے کارخانے اور دیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے مکمل انفراسٹرکچر سبھی کچھ موجود ہے۔ اس کے باوجود ملک میں کل زرعی رقبے کا محض 47فیصد زیر کاشت لایا جاتا ہے۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ملک بھارت میں یہ شرح 60یہاں تک کہ قازقستان میں 80.4فیصد (سب سے زیادہ)ہے۔ 1961میں پاکستان کا 46.3فیصد زرعی رقبہ زیر استعمال تھا گویا 60برس میں صرف اعشاریہ سات فیصد کو قابلِ کاشت بنایا گیا اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک پہلے کے مقابلے میں فی ایکڑ دوگنا پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔یہ بات باعث اطمینان ہے کہ حکومت نے کسان کنونشن منعقد کرکے ایک ناگزیر ضرورت پوری کی ہے جس کے توسط سے کاشتکاروں کو درپیش مسائل براہِ راست حکام کے علم میں آتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ زرعی سائنسدانوں کے ساتھ منصوبہ بندی، خزانہ، زراعت، صنعت و تجارت سے متعلق ارباب بست و کشاد کی بامقصد کانفرنسیں منعقد کی جائیں خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کے تجربات کی روشنی میں آبادی اور خوراک سے متعلق ٹھوس قلیل و طویل مدتی منصوبے بنا کر ان پر بروقت عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ مستقبل کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہوا جا سکے۔