میں اور عبداللّٰہ سائیں!

September 25, 2021

میرا ایک عزیز جو عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا، مگر دانائی میں مجھ سے کہیں آگے ہے، مجھے اکثر سمجھاتا ہے کہ آپ کیا ٹکے ٹکے کے لوگوں کے فون سنتے ہیں، انہیں لفٹ نہ کرایا کریں مگر آپ تو ان کے غموں اور خوشیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر بھی رابطے میں رہتے ہیں، ان کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں، ان سے اس طرح عزت سے ملتے ہیں جیسے وہ آپ سے عمر اور مرتبے میں بھی بڑے ہوں، آپ اپنا اسٹیٹس دیکھیں اور ان لوگوں کو فاصلے پر رکھا کریں۔ اس نے ایک مرتبہ مجھے بشیر بدر کا یہ شعر بھی سنایا تھا ؎

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

ایک دن میں نے سوچا کہ میں اپنے عزیز کی یہ باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں ، کیوں نہ سنجیدگی سے ان پر غور کیا جائے، چنانچہ میں نے اپنے اور ان کے ’’کوائف‘‘ جاننے کے لئے ایک دن ’’مراقبہ‘‘ کیا کہ دیکھو میں ان سے کس طرح برتر ہوں؟ میں نے سوچا کہ اس ’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ کے دوران شاید غیب سے کوئی آواز آئے اور یوں میرا مسئلہ حل ہو جائے۔

سب سے پہلے میں نے اپنے جسم کو ٹٹولااور محسوس کیا کہ ان کی طرح میرے بھی دو ہاتھ ہیں، میری بھی دو آنکھیں اور دو ٹانگیں ہیں، ہم دونوں بیمار بھی ہوتے ہیں اور ایک دن ہم سب نے مر بھی جانا ہے۔

ہماری قبریں ایک ساتھ ہوں گی اور ایک ہی سائز کی ہوں گی تو پھر میں کس لحاظ سے ان سے برتر ہوں؟ میں نے سوچا میں رائٹر ہوں اور اس حوالے سے میرا بہت نام ہے، مگر پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ عارف ترکھان اپنے شعبے میں جتنی شہرت رکھتا ہے اور اس حوالے سے اس کا جتنا نام ہے، میں اسے کس کھاتے میں رکھوں۔

پھر مجھے سلطان کاشتکار یاد آیا جسے ہم مولی مولی کہتے ہیں، کاشتکاری کے حوالے سے اس کا علم زراعت میں کسی پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے بھی زیادہ ہے مگر یہ سب سوچتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں تو اشفاق احمد کی باتیں دہرا رہا ہوں، سو میں نے خیال کا رُخ موڑا اور اپنے تجربے کی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ لوگ مجھ سے کہیں زیادہ خوش رہتے ہیں۔

مجھ سے کہیں زیادہ مسکراتے اور قہقہے لگاتے ہیں جبکہ میرے پاس ان سے کہیں زیادہ خوشی کے سامان ہیں مگر میں ڈپریشن کے خاتمے کے لئے ڈاکٹر سعد ملک کی لکھی ہوئی ادویات گزشتہ بیس برس سے لے رہا ہوں۔

جس دن ناغہ ہو جائے نیند ہی نہیں آتی جبکہ یہ لوگ اتنی گہری نیند سوتے ہیں کہ صورِ اسرافیل ہی سے جاگنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تاہم میری اس تحریر کو بنیاد بنا کر ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ والے ان کی غربت میں کمی اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کی بجائے انہیں کہیں مزید غصب کرنے کی نہ ٹھان بیٹھیں!

یہ سب کچھ سوچتے ہوئے ساتھ ساتھ میں کسی غیبی آواز کا بھی منتظر تھا کہ میں مراقبے میں تو بیٹھا ہی اس لئے تھا، جب مجھے کوئی آواز نہ آئی تو میں اٹھا اور عبداللّٰہ سائیں کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔

اس کے سامنے بہت سے مرید بیٹھے ہوئے تھے اور سائیں عبداللّٰہ بھی ان کے درمیان ایسے بیٹھا تھا کہ جو اسے جانتا نہ ہو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ بھی شاید انہی میں سے ہے۔

سائیں نے مجھے دیکھا تو اٹھ کر گلے ملا اور ایک لڑکے سے کہا جائو اندر سے بابوجی کے لئے کرسی لے کر آئو۔ میں نے یہ سنا تو کہا سائیں جی میں تو تمیزِ بندہ و آقا کے عام چلن سے تنگ آنے کی وجہ سے آپ سے رہنمائی لینے آیا تھا مگر آپ نے تو خود یہ تمیز برقرار رکھی، باقی سب لوگوں کو اپنے ساتھ زمین پر بٹھایا ہوا ہے اور میرے لئے کرسی منگوا رہے ہیں۔

یہ سن کر سائیں عبداللّٰہ مسکرایا اور کہا ’’قاسمی صاحب! میں انہیں سمجھا رہا تھا کہ ہم سب نے قیامت تک زمین کا مہمان رہنا ہے، زمین پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں بہت سے آپ ہی کے قدوقامت کے لوگ ہیں، مگر آپ کے لئے کرسی اس لئے منگوائی کہ مجھے علم ہے آپ کو گھٹنوں کا پرابلم ہے اور آپ زمین پر نہیں بیٹھ سکتے!‘‘ اس کے بعد بولے ’’میں آپ کو طویل عرصے سے جانتا ہوں اس وقت سے جب آپ کے پاس اسکوٹر ہوتا تھا اور پھر طویل عرصہ تک ان سب لوگوں جیسی زندگی گزارنے کے بعد آج آپ کو ایک مقام حاصل ہوا ہے مگر آپ کو نہ تو اپنی گاڑی اور نہ شہرت اور نہ عہدوں نے آپ کے انکسار اور محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کی خواہش نے کمزور ہونے دیا ہے۔

مجھے یہ بتائیں کہ اس رویے اور اس نظریئے پر عمل پیرا ہونے سے دوسروں کی طرف سے دی جانے والی عزت میں کبھی کوئی کمی محسوس ہوئی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں سائیں جی، قطعاً نہیں، لوگ پہلے سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور عزت دیتے ہیں، بس کچھ لوگوں کو میرا یہ انکسار راس نہیں آتا اور میری عاجزی ان کے نفس کو اور موٹا کر دیتی ہے‘‘۔

یہاں میں آپ کو یہ بتاتا جائوں کہ سائیں عبداللّٰہ ایک طویل عرصے سے میرا دوست ہے، اس کا تعلق بہت بڑے گھرانے سے ہے مگر ایامِ جوانی ہی سے لوگ اس کی بظاہر سادہ لوحی اور عبادات اور شفاف معاملات کی وجہ سے اسے ’’سائیں‘‘ کہنے لگے تھے۔

انہوں نے میری بات سنی تو پوچھا ’’ان لوگوں کی وجہ سے تمہیں کبھی کوئی نقصان اور ان کو کوئی فائدہ پہنچا؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ بولے ’’بس زندگی اسی طرح گزارتے رہو جیسی گزارتے چلے آ رہے ہو‘‘۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے مہمانوں سے کہا ’’لو بھئی سجنو، تم سے کل ملاقات ہو گی‘‘ پھر مجھے مخاطب کیا ’’چل بھئی قاسمی، لکشمی چوک چلتے ہیں، بہت دنوں سے وہاں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر دال چاول نہیں کھائے اور نہ مالشیے سے سر کی چانپی کروائی ہے‘‘۔