اعلیٰ حضرتؒ ایک ہمہ جہت علمی شخصیت

October 03, 2021

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

( ممتاز ایٹمی سائنس دان)

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ باہر سے آئے ہوئے علماء اور مذہبی مبلغین نے کی اور اسلام کو پھیلایا۔ اجمیر، ملتان، کراچی، اوچ اوردہلی میں ان اولیاء اللہ کے مزارات ہیں۔ ان کے علاوہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، بہار، بھوپال میں کئی علماء اور مبلغین کے مزارات ہیں۔

پچھلے دور میںجن علماء نے اسلام کی اعلیٰ خدمت کی، ان میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒکو خاص اور اہم مقام حاصل ہے۔ آپ 14 جون 1856 میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پیدائشی نام محمد خان رکھا گیا اور خود کو پہلے عبدالمصطفیٰ یعنی مصطفیٰ(ﷺ) کا غلام کہتے تھے ،بعد میں آپ نے احمد رضا خان نام اختیار کرلیا۔ آپ کو ”امام احمد رضا خان قادری“ اور” اعلیٰ حضرت“ کے اسم شریف سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ایک صوفی اور اصلاح کرنے والے عالم تھے۔ آپ کے والد محترم کا نام(مولانا) نقی علی خان اور دادا محترم کا نام(مولانا) رضا علی خان تھا۔آپ نے ایک عظیم تحریک کی بنیاد ڈالی(جو عالم اسلام میں فروغ عشق مصطفیٰ ﷺ کامؤثرذریعہ ثابت ہوئی)۔

مولانا احمد رضا خان بریلوی قادری ؒکی تحریک اسلامی قوانین کو صوفی ازم اور دوسری رسومات پر افضلیت دیتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مولانااحمد رضا خاں نے اہم سیاسی اُمور پر مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ دراصل یہ تحریک پہلے مضافاتی علاقوں میں کامیاب ہوئی ،مگر جلد ہی شہری علاقوں میں پھیل گئی اورہردل عزیز ہے ،خاص طور پر ہندوستان و پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں مشرق بعید کے مسلمانوں میںمقبول ہے۔

مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒ نے کئی کتابیں، مختلف موضوعات پر عربی، فارسی اور اردو میں تحریر کیں۔ خاص طور پر آپ کی دو کتابیں: کنزالایمان اور فتاویٰ رضویہ بے حد مشہور ہیں۔ کنزالایمان میں حنفی عقیدہ اور سنی مسلمانوں کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔برصغیر میں یہ بکثرت پڑھی جاتی ہے، اس کا ترجمہ انگریزی،ہندی،بنگالی،ڈچ،ترکش،سندھی،گجراتی اور پشتو زبانوں میں کیا گیا ہے اور لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ فتاویٰ رضویہ بائیس ہزار صفحات پر مشتمل ہے،اس میں مسلمانوں کی روز مر ہ زندگی میں پیش آنے والے معاملات پر جامع حل بتائے گئے ہیں۔

آپ کی ایک اور کتاب حسام الحرمین ہے اور اس کا لفظی ترجمہ ہے: ’’حرمین کی تلوار کافروں اور جھوٹوں کے حلق پر‘‘ اپنی اس کتاب میں آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارے پیارے رسول ﷺ کی عزّت و احترام کے لیے یہ ضروری تحریر ہے۔ اپنی اس کتاب و تحریر کی تائید میں آپ نے اس علاقے کے 268 علمائے کرام سے فتوے حاصل کیے اور کئی مکہ، مدینہ کے علماء سے بھی تائیدی فتاویٰ حاصل کیے، اس طرح اس کتاب کی تحریر کی صداقت مستند ہوگئی۔

مولانا احمد رضا خان قادریؒ نے نعتوں پر مشتمل ایک اعلیٰ کتاب ”حدائق بخشش“ لکھی ہے۔ اس میں تحریر کردہ نعتیں مسلمان تمام مذہبی مجلسوں میں پڑھتے ہیں۔ اس میں رسول اکرم ﷺکی تعریف، آپ ﷺ کی شخصیت، آپ ﷺکا چہرہ مُبارک، آپ ﷺکے اہل بیتؓ کی تعریفیں بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی 15 دوسری کتب بھی شہرت یافتہ اور ہردلعزیز ہیں۔

آپ کے سیاسی نظریات بھی بہت اہم تھے۔ آپ نے گاندھی کی سربراہی میں ہندوستان کی آزادی کی جدّوجہد میں حصّہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ انگریزوں کے زیر سایہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے میں قطعی کسی قسم کی پابندی نہیں ہے اور انھوں نے مسلمانوں کی جنگی حالت اور ہجرت سے منع کیا۔

علامہ اقبالؒ نے مولانا احمد رضا خان ؒکے بارے میں بہت تعریفی کلمات کہے اور کہا کہ:” ایسا دانشور اور عقل و فہم کا مالک انسان اور قانونی ماہر پھر پیدا نہیں ہوا“۔

لبنان کے مفتی اعظم یوسف النبہانی نے مولانا احمد رضا خانؒ کے فتوے پڑھ کر کہا:’’ وہ ایک عظیم انسان اور سائنس کے بھی ماہر تھے‘‘۔

مکہ معظمہ کے مفتی علی بن حسن ملک نے کہا کہ:

’’ مولانا احمد رضا خان ؒکو تما م مذہبوں کی سائنس پر مکمل عبور ہے‘‘

اور افغانستان کے پروفیسر عبدالشکور شاد (کابل یونیورسٹی) نے کہا کہ:’’ مولانا احمد رضا خان کی تمام تحریریوں اور تصانیف کو جمع کرنے اور کیٹیلاگ کی شکل میں جمع کرنے اور ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کی لائبریریوں میں رکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔

آپ نے ہندو پاک میں لاتعداد اپنے خلفاء چھوڑے جو ان کی تعلیم کی تبلیغ میں مصروف عمل رہے ۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے لاتعداد سائنسی موضوعات پر مضامین و مقالے لکھے ۔آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک اہم پہلو سائنس سے شنا سائی بھی ہے ، سورج کو حرکت پذیر اور محو گردش ثابت کرنے کے ضمن میں آپ کے دلائل بڑے اہمیت کے حامل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اپنے دور کے فقیہ، مفتی، محدث، مُفسر، معلم اور اعلیٰ مصنف تھے۔ جب آپ ان کی تحریروں اور مقالہ جات کا مطالعہ کریں تو احساس ہوگا کہ آپ اپنے وقت سے بہت پہلے دنیا میں تشریف لے آئے اور جن علوم پر تفصیلی مقالے لکھے ، وہ بہت عرصےکے بعد عوام کی سمجھ میں آئے ہیں۔ اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ( آمین)