صدراتی ایوارڈ یافتہ، پشتو فلموں کا ہیرو ’’بدر منیر‘‘

October 06, 2021

پاکستان فلمی صنعت کی ابتدا اردو فلموں کے ساتھ ہی 1949ء میں پہلی علاقائی زبان پنجابی میں بننے والی فلم ’’پھیرے‘‘ کی کام یابی نے پنجابی سنیما کی بنیاد رکھی۔ کراچی میں 1955ء میں فلمی صنعت کا قیام عمل پذیر آیا تو اردو فلموں کے ساتھ ساتھ سندھی فلموں کی بھی ابتدا ہوئی، پہلی سندھی فلم ’’عمر ماروی‘‘ 1956ء میں ریلیز ہوئی۔ پنجابی اور سندھی فلموں کی کام یابی نے پشتو زبان بولنے والوں کو بھی فلم سازی کی طرف راغب کیا۔

یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ پشتو فلموں کا آغاز 1970ء میں کراچی سے ہوا اردو پنجابی کے بعد پشتو فلموں کو باکس آفس پر بہت کامیابیاں ملیں، ملکی فلمی صنعت کو ان فلموں نے نہ صرف مایہ ناز فن کار فراہم کیے، بلکہ ایک خطیر سرمایہ بھی دیا ، جس نے فلمی صنعت کو مزید ترقی دی۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں جب بھی اردو، پنجابی، سندھ فلموں کا تذکرہ کیا جائے گا تو وہاں پشتو سنیما کاذکر بھی ضرور آئے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملکی سطح پر پشتو سنیما کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے، آج ہم پشتو فلموں کے صدارتی ایوارڈ یافتہ، ہیرو بَدر مُنیر کے حوالے سے بات کریں گے۔ بدر منیر 1940ء میں مدین شگرام میں پیدا ہوئے، والد محمد یعقوب جان ایک مسجد کے پیش امام تھے بدر منیر کا ایک بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔

گھریلو حالات کے پیش نظر بدر کوئی خاص تعلیم حاصل نہ کرسکا ۔ کم عمری میں اپنے گائوں میں گنے کے کھیتوں میں محنت مزدوری کرنے لگا، جب جوان ہوا تو پاکستان کے صنعتی اور معاشی شہر کراچی کی طرف اپنی قسمت آزمانے کئ لیے رخ کیا، کراچی آنے بعد وہ مزدوری کرنے لگا، کراچی کی گلیوں میں مختلف چیزیں بیچنے والا بدر منیر جو پیسے کماتا، وہ اپنے گائوں بھیج دیتا، فلمی اداکار بننے کا اس نے کبھی سوچا نہیں تھا، اس کے ذہن میں شروع ہی سے یہ سپنا تھا کہ کراچی کے ساحل سے وہ سمندر پار کسی ملک میں پیسہ کما کر اپنے گاؤں میں خوش حالی کی زندگی بسر کرے گا۔

اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے وہ دبئی اور لندن تک گیا، مگر تقدیر اسے ایک فلم اسٹار کی صورت میں مہربان ہونے والی تھی، ایک روز اسے ایسٹرن اسٹوڈیو کی کینٹین میں بیرہ گیری کی ملازمت مل گئی۔ یہ 1958ء کا ذِکر ہے، وہ فلم کے سیٹ پر لوگوں کے لیے چائے، بسکٹ وغیرہ بہنچانے پر مامور رہا، اسی اثناء میں ایک فلم ’’سویرا‘‘ بن رہی تھی، جس میں کمال، شمیم آرا، لہری، رخسانہ اور ایمی مینوالا اہم کردار کررہے تھے۔ فلم کے ہدایتکار رفیق رضوی (بابو) تھے۔ اس فلم میں پہلی بار بدر منیر کو بہ طور ایکسٹرا اداکار کاسٹ کیا گیا۔

فلم کا مشہور گیت ’’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں‘‘ آج بھی بے حد مقبول ہے۔ یہ فلم 1959ء جولائی کو کراچی کے پلازہ سنیما میں ریلیز ہوئی تھی، یہی بدر منیر کی پہلی فلم تھی۔ یہ بات خود بدر منیر نے اپنے دیے گئے ایک انٹرویو میں بتائی تھی۔ ایمی مینوالا جو اپنے زمانے کی مشہور ڈانسر تھیں، انہوں نے بدر منیر کو اپنے سیکریٹری کے طور پر رکھ لیا ، لیکن کچھ ماہ بعد بدر منیر نے یہ ملازمت چھوڑ کر اداکار وحید مراد کے پروڈکشن آفس میں بہ طور چپراسی ملازمت اختیار کرلی۔ اسٹوڈیو میں کام کرتے ہوئے ان کی سلام دُعا بہت سے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سے ہوگئی۔

شکل و صورت سے وہ ایک خُوب صورت انسان تھے، بہت جلد لوگ ان سے متاثر ہوجاتے تھے،اس دور کے مایہ ناز فوٹو گرافر نذیر حسین نے ایک روز بدر کو اپنے ساتھ کیمرہ ڈپارٹمنٹ میں رکھ لیا، ان ہی دنوں پشتو فلموں کے معروف عوامی اداکار نعمت سرحدی بھی ان کے شاگرد تھے۔ بدر منیر نے ٹرالی مین کے طور پر نذیر حسین کی شاگردی اختیار کرلی ۔ اس زمانے میں ہدایت کار شیخ حسن فلم ’’جاگ اٹھا انسان‘‘ بنا رہے تھے، اس فلم میں انہوں نے بدر منیر کو ایک انگریز سپاہی کا کردار سونپا ۔ یہ فلم 1966ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد بدر منیر نے وحید مراد پروڈکشن کی ’’ارمان‘‘ہدایت کار پرویز ملک کی ’’دوراہا‘‘ ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ ہدایت کار حسن طارق کی ’’بہن بھائی‘‘ اور منور رشید کی ’’نئی لیلیٰ نیا مجنوں‘‘ اور ’’روڈ ٹو سوات‘‘ میں بہ طور ایکسٹرا کام کیا۔

ان میں پرویز ملک کی ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ بدر منیر کی پہلی فلم تھی، جس میں وہ باکسر کے کردار میں نمایاں طور پر شامل تھے۔ نذیر حسین کی شاگردی میں فوٹوگرافی کی ٹیکنیک سمجھتے ہوئے بدر منیر نے شعبہ فائٹ میں بھی تربیت حاصل کی، فوٹوگرافی، اداکاری اور فائٹر کے طور پر فلموں میں کام کرتے ہوئے ایک روز اس نے اپنے استاد عکاس نذیر حسین کو ایک پشتو لوک کہانی سنائی، جس پر نذیر صاحب فلم بنانے کے لیے تیار ہوگئے۔ کراچی شہر جہاں پختون بھائیوں کی بہت بڑی آبادی رہائش پذیر تھی۔

ان کے لیے ایک پشتو فلم بنانے کی باتیں ہونے لگیں۔ ایسٹرن اسٹوڈیو کے لیب انچارج شفیع قاضی، فوٹو گرافر نذیر حسین اور مدد علی ان تینوں نے بدر منیر کی سنائی گئی رومانی لوک داستان ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ کے اسکرپٹ کے لیے مصنف علی حیدر جوشی کی خدمات لیں۔ فلم کے نغمات عزیز تبسم کا نام فائنل کیا۔ ان دنوں وہ ہدایت کار پرویز ملک کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کررہے تھے۔ فلم کی ہیروئن کے لیے اداکار ساقی نے کراچی میں بطور ایکسٹرا کام کرنے والی ایک لڑکی یاسمین خان کو متعارف کروایا۔

بہ طور ہیروئن وہ فلم کے لیے سلیکٹ ہوگئیں۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں ماہ پارہ، شہباز درانی، ساقی، شیریں تاج، ترنم اور نعمت سرحدی کے نام شامل کیے گئے، جب یہ فلم تیار ہوگئ تو پختون جرگوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر یہ پشتو فلم چلی تو سنیما جلائے گے۔ 26؍جون 1970ء کو یہ کراچی کے خوب صورت لگژری سنیما گوڈین میں پیش کی گئی۔ پہلے شو کے بعد لوگوں نے دوسرے شو کی ٹکٹیں خرید لیں اور بے تحاشا رش کے ساتھ یہ فلم کئی ماہ تک اسی سنیما میں زیرنمائش رہی۔ گوڈین سے یہ کراچی کے قدیم سنیما تاج محل میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے شان دار سلور جوبلی منائی۔

اس کی سلور جوبلی کے موقع پر بدر منیر، یاسمین خان، نعمت سرحدی اور عزیز تبسم نے تاج محل سنیما کے اسٹیج پر آکر عوام کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر پختون عوام نے بدر منیر کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر خوب عزت افزائی فرمائی۔ پشاور میں یہ فلم عیدالفطر 1970ء میں صابرینہ سنیما پر لگی تھی، جہاں یہ کئی ماہ تک بھرپور رش کے ساتھ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ کی ملک گیر کام یابی نے پشتو سنیما کو عروج دیا اور دیگر فلم ساز بھی پشتو فلمیں بنانے لگے۔ بدر منیر کو پہلی ہی پشتو فلم نے سپر اسٹار بنا دیا۔ یاسمین خان کی قسمت کا ستارہ بھی خوب چمکا، بدر منیر کے ساتھ ان کی جوڑی پشتو باکس آفس کی کام یاب ترین جوڑی قرار پائی۔ ان دونوں نے 104؍فلموں میں اداکاری کی۔

’’یوسف خان شیر بانو‘‘ اور دیگر پشتو فلموں کی کام یابی کے بعد 1972ء میں فوٹو گرافر نذیر حسین کی ہدایات میں بننے والی کلر ایکشن اردو فلم ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ میں بدر منیر اور یاسمین خان نے لیڈنگز رولز کیے، معروف اداکارہ چکوری کی یہ پہلی اردو فلم تھی، اسی میوزیکل ایکشن فلم میں لال محمد اقبال نے بہت مقبول گیت کمپوز کیے ’’وادیاں مجھ کو بلائے میرا بسیرا ہے وہاں جہاں برف گرتی ہے‘‘ اور ’’مجھ کو ملا ایسا محبوب جس کی ہر ادا‘‘ یہ دونوں گانے احمد رشدی کی آواز میں بدر منیر پر فلمائے گئے۔ اسی سال بدر منیر کو اداکار سید کمال نے اپنی فلم ’’آخری حملہ‘‘ میں ایک اہم کردار سونپا، اس فلم میں کمال اور بدر منیر پر احمد رشدی کی آواز میں ایک بہت ہی عمدہ اور مقبول گیت ’’اللہ میرے کریو کرم کا پھیرا مجھے بڑا بھروسہ تیرا‘‘ ہدایت کار عارف خان کی اردو فلم میں بدر منیر نے ٹائٹل رول کیا۔

اس سال 8؍جون کو ریلیز ہونے والی پشتو فلم ’’اوربل‘‘ نے باکس آفس پر بزنس کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا، جو اس سے قبل کسی پاکستانی فلم کے حصے میں نہیں آیا۔ یہ فلم پشاور کے ناز سنیما پر مسلسل 67؍ہفتے چلتی رہی اور پہلی سولو گولڈن جوبلی کے اعزاز سے ہمکنار ہوئی۔ ناز سنیما کے بعد یہ دیگر سنیماؤں میں چلتے ہوئے بڑی کام یابی سے ڈائمنڈ جوبلی منانے میں کام یاب ہوگئی۔ یہ پشتو کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کہلائی۔

اس فلم میں پہلی بار بدر منیر اور یاسمین خان نے ینگ ٹو اولڈ کریکٹر کئے ۔ اس گھریلو ایکشن نغماتی فلم کے ہدایت کار ممتاز علی خان تھے، جب کہ فلم ساز عصرحاضر کے مایہ ناز پشتو فلموں کے اداکار شاہد خان اور ہدایت کار ارشد خان کے والد سردار علی خان تھے، جنہوں نے اس فلم کی آمدن سے پشاور میں ارشد سنیما بنایا۔ آصف خان اور ثریا خان نے اس فلم میں لیڈنگز رولز کئے تھے۔ کراچی کے ریگل سنیما میں اس فلم نے سپرہٹ بزنس کیا۔ یہ وہ دور تھا، جب پشتو فلموں میں پختون کلچر، معاشی مسائل اور معاشرتی برائیوں کی طرف نشاندہی کی جاتی تھی، بہت عمدہ موسیقی سے آراستہ ان فلموں کے نام بھی عام فہم ہوتے تھے، بہترین اسکرپٹ کی موجودگی ان فلموں کو کام یاب کرانے میں نمایاں کردار ادا کرتی۔ 1974ء میں فلم ساز قوی خان کی ذاتی پنجابی فلم ’’منجھی کتھے ڈاہواں‘‘ نے بدر منیر نے پہلی بار اداکاری کی۔ بدر منیر اس وقت نہ صرف پشتو فلموں کے کام یاب اداکار تھے، بلکہ اردو، پنجابی اور سندھی فلموں میں بھی انہوں نے اپنی اداکاری کے بھرپور جوہر دکھائے۔

بدر منیر کی اردو فلموں میں اہمیت اور مارکیٹ 1975ء میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’’دلہن ایک رات کی‘‘ سے بڑھ گئی۔ یہ ایکشن فلم پورے ملک میں سپرہٹ رہی۔ کراچی کے رینو سنیما میں اس فلم نے ڈانئمنڈ جوبلی منائی ۔ اداکارہ نمی نے اس فلم میں ہیروئن کا کردار کیا۔ معروف اداکارہ مسرت شاہین کو اسی فلم نے بام عروج پر پہنچایا۔ اسی فلم کی کام یابی کے

بعد بدر منیر کی مارکیٹ اردو فلموں میں بھی بڑھ گئی۔ بدر منیر کی ریلیز شدہ فلموں کی تعداد 490؍ہے۔ ان پشتو فلموں کی 356؍ہے۔ پشتو باکس آفس پر بدر منیر کے جانے کے بعد کوئی اور اداکار ان کی جگہ نہ لے سکا۔

11؍اکتوبر 2008ء بانی پشتو سنیما کا یہ سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ حکومت نے ان کی فلمی خدمات کے پیش نظر 14؍اگست 2008ء کو انہیں صدارتی ایوارڈ دیا۔ 2011ء میں خیبر پختون خواہ کی حکومت نے اس لیجنڈ اداکار کے نام پر پشاور کی مشہور شاہراہ سنیما روڈ کو بدر منیر روڈ کا نام دیا۔

بدر منیر کی شہرت جب فلموں کے ذریعے ہوئی تو ٹی وی پر چند کمرشل بھی کیے، جن میں ایک چائے کا ایڈ بے حد مشہور ہوا، پشتو فلموں میں پہلی کام یاب جوڑی ان کی یاسمین خان کے ساتھ پسند کی گئی۔ اس کے بعد مسرت شاہین کے ساتھ انہیں نہ صرف پشتو فلموں میں پسند کیا گیا، بلکہ اردو فلموں میں بھی یہ جوڑی بڑی ہٹ رہی۔ اس جوڑی نے تقریباً 100؍فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔ بدر منیر نے بطور ہیرو اردو کی مقبول ہیروئن رانی، بابرہ شریف، دیبا، نمی، نجمہ اور مدیحہ شاہ کے مقابل بھی کام کیا ،جب کہ پشتو فلموں کی مقبول ہیروئنز وحیدہ خان، ثریا خان، خانم، شہناز، عشرت چوہدری، سنیتا خان اور نازو کے ساتھ بھی ہیرو آئے۔

اداکار آصف خان اور نعمت سرحدی کے ساتھ بھی ان کا اشتراک پشتو باکس پر بے حد کام یاب رہا۔ بہ طور فلم ساز انہوں نے گیارہ فلمیں پروڈیوس کیں، دو شادیاں کیں، ان کا بیٹا دلبر منیر بھی چند فلموں میں آیا، مگر چل نہ سکا۔ ان کی کیمسٹری ہدایت کار عزیز تبسم، ممتاز علی خان اور عنایت اللہ خان کے ساتھ بہت ملتی تھی۔

صدارتی ایوارڈ کے علاوہ نگار ایوارڈ، مصور ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ، اسکرین لائٹ ایوارڈ، نیشنل ایوارڈ، بولان ایوارڈ کے علاوہ پختون ثقافتی تنظیموں کی جانب سے انہیں بے شمار ایوارڈ ملے۔ وہ اداکاروں والے نخرے نہ کرتے، ان کی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے آج ان کے لاکھوں مداح انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پشتو فلموں کا ایک فطری و حقیقی ہیرو تھا، جس کی اداکاری نیچرل تھی وہ ہر کردار میں پختون کی شان اور وقار بن کر ابھرا۔ بدر منیر کریم بلاک قبرستان لاہور میں آسودئہ خاک ہیں۔